حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ اور اتباع قرآن
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
منقول ہے کہ ایک دفعہ حضرت عبادہ بن صامت کے برادر گرامی حضرت اوس بن صامت کسی بات پر اپنی بیوی خولہ بنت ثعلبہ سے ناراض ہوگئے، اور اسی ناراضگی کے عالم میں ان سے ظہار کرلیا، اور کہا:
أنت علي كظهر أمي۔ یعنی تو مجھ پر میری ماں کی پشت کی طرح ہے۔
واضح رہے کہ دور جاہلیت میں بیوی سے جدائی کے کئی طریقے رائج تھے، جن میں ایک معروف طریقہ ظہار کا تھا، ظہار کی صورت یہ ہوتی تھی کہ شوہر اپنی بیوی سے کہتا کہ تو مجھ پر ایسے ہی حرام ہے جیسے میری ماں مجھ پر حرام ہے، اس کے بعد زوجین کے درمیان تفریق ہوجاتی تھی، کیونکہ دور جاہلیت میں ظہار طلاق کے مترادف ہوا کرتا تھا۔
لیکن اسلام میں ظہار کے سلسلے میں ابھی تک کوئی حکم نازل نہیں ہوا تھا، اسی لیے جب حضرت اوس بن صامت نے ظہار کیا تو آپ کی زوجہ حضرت خولہ بنت ثعلبہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئیں، اور اپنے بارے میں حکم دریافت کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم اپنے شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہو۔
حضرت خولہ نے کہا: یا رسول اللہ! میرے شوہر نے طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔
آپ نے فرمایا: تم اپنے شوہر کے لیے حرام ہوچکی ہو۔
حضرت خولہ نے پھر وہی کہا کہ میرے شوہر نے طلاق کا ذکر نہیں کیا ہے۔
اس طرح کئی بار ہوا، پھر حضرت خولہ اپنے رب کے حضور یوں فریاد کرنے لگیں:
اشْكُو إلى الله تَعالى فاقَتِي وشِدَّةَ حالِي، وإنَّ لِي صِبْيَةً صِغارًا إنْ ضَمَمْتُهم إلَيْهِ ضاعُوا، وإنْ ضَمَمْتُهم إلَيَّ جاعُوا، وجَعَلَتْ تَرْفَعُ رَأْسَها إلى السَّماءِ، وتَقُولُ: اللَّهُمَّ إنِّي أشْكُو إلَيْكَ، اللَّهُمَّ فَأنْزِلْ عَلى لِسانِ نَبِيِّكَ. وما بَرِحَتْ حَتّى نَزَلَ القُرْآنُ فيها۔
یعنی اے اللہ! میں تجھ سے اپنی تنگدستی اور زندگی کی تکالیف بیان کرتی ہوں، میرے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، اگر انھیں ان کے والد کے حوالے کردوں تو ضائع ہوجائیں گے، اپنے پاس رکھوں تو بھوکے مرجائیں گے۔
پھر خولہ آسمان کی طرف سر اٹھا کر دعا کرنے لگیں کہ پروردگار! ہمارے بارے میں اپنے نبی کے پاس وحی بھیج دے، اور ظہار کا حکم نازل فرمادے۔ آپ مسلسل گریہ وزاری کرتی رہیں، یہاں تک کہ آپ کی دعا قبول ہوگئی، اور سورۂ مجادلہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، جن میں اللہ تعالیٰ نے ظہار کا حکم واضح فرمایا، اور اس سے پہلے یہ بیان فرمایا کہ نبی کریم ﷺ کے ساتھ خولہ نے بحث وتکرار کی، پھر خدا کے حضور گریہ وزاری کی۔چنانچہ سورۂ مجادلہ کی پہلی آیت میں فرمایا:
قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ قَوْلَ الَّتِيْ تُجَادِلُكَ فِيْ زَوْجِهَا وَ تَشْتَكِيْۤ اِلَى اللّٰهِ١ۖۗ وَ اللّٰهُ يَسْمَعُ تَحَاوُرَكُمَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ سَمِيْعٌۢ بَصِيْرٌ۔ [سورۂ مجادلہ: ۱]
یعنی اللہ نے اس عورت کی بات سن لی ہے جو اپنے شوہر کے معاملے میں آپ سے تکرار کرتی ہے اور اللہ سے شکایت کرتی ہے، اور اللہ تمھاری باہمی گفتگو سن رہا ہے، اور اللہ خوب سننے اور دیکھنے والا ہے۔
ہم نے یہ واقعہ اس لیے بیان کیا کہ اس سے حضرت عمر بن خطاب کا ایک حیرت انگیز اور خوب صورت عمل متعلق ہے۔
آپ کے دور خلافت کی بات ہے کہ ایک دفعہ آپ اپنے چند اصحاب کے ساتھ ایک دراز گوش پر سوار ہوکر کہیں سے گزر رہے تھے، اتنے میں ایک عمر رسیدہ خاتون نے آپ کا راستہ روک لیا، اور ناصحانہ لب ولہجے میں کہنے لگی:
يَا عُمَرُ! قَدْ كُنْتَ تُدْعَى عُمَيْرًا، ثُمَّ قِيلَ لَكَ عُمَرُ، ثُمَّ قِيلَ لَكَ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ، فَاتَّقِ الله يَا عُمَرُ! فَإِنَّهُ مَنْ أَيْقَنَ بِالْمَوْتِ خَافَ الْفَوْتَ، وَمَنْ أَيْقَنَ بِالْحِسَابِ خَافَ الْعَذَابَ۔
اے عمر! کبھی آپ کو عمیر کہا جاتا تھا، بعد میں عمر کہا جانے لگا، اور اب تو امیر المومنین کہہ کر آپ کو مخاطب کیا جاتا ہے۔
اے عمر! اللہ سے ڈرتے رہو، جسے موت پر یقین ہوگا اسے ہر شے کے فوت ہوجانے کا خوف ہوگا، اور جسے حساب پر یقین ہوگا اسے عذاب کا بھی اندیشہ ہوگا۔
حضرت فاروق اعظم کمال اطمینان کے ساتھ اس خاتون کی نصیحت سن رہے تھے، کسی ہمراہی نے کہا کہ اے امیر المومنین! ایک ضعیفہ کے لیے اتنی دیر رکنے کی کوئی وجہ؟تو آپ نے فرمایا:
وَالله لَوْ حَبَسَتْنِي مِنْ أَوَّلِ النَّهَارِ إِلَى آخِرِهِ لَا زِلْتُ إِلَّا لِلصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ۔
بخدا اگر یہ ضعیفہ مجھے صبح سے شام تک روکے رہے تو میں اس کے لیے رکا رہوں گا، اور فرض نماز کی ادائیگی کے علاوہ اس کے سامنے سے نہیں ہٹوں گا۔
پھر آپ نے اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر فرمایا: تمھیں معلوم ہے یہ بڑھیا کون ہے؟ خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا:
هي خولة بِنْتُ ثَعْلَبَةَ، سَمِعَ الله قَوْلَهـَا مِنْ فَوْقِ سَبْعِ سَمَوَاتٍ، أَيَسْمَعُ رَبُّ الْعَالَمِينَ قَوْلَهَا وَلَا يَسْمَعُهُ عُمَرُ؟
یہ وہی خولہ بنت ثعلبہ ہے، جس کی بات اللہ نے سن لی، یہ کیوں کر ممکن ہے کہ اللہ تو اس خاتون کی بات سن لے، اور عمر نہ سنے۔ [تفسيرقرطبی تفسیر متعلقہ آیت]
اللہ جل شانہ نے فرمایا: قَدْ سَمِعَ اللّٰهُ۔ یعنی اللہ نے خولہ کی دعا سن لی، اور ظہار کا حکم نازل فرمادیا، حضرت عمر نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا: جس کی بات اللہ نے سن لی، عمر کو کوئی حق نہیں پہنچتا کہ اس کی بات نہ سنے، بخدا جس کی بات بارگاہ حق میں ایک بار سن لی گئی اس کی بات صبح سے شام تک کھڑے ہوکر سننا پڑے میں سننے کو تیار ہوں۔
دنیا کے کئی بر اعظم پر بلا شرکت غیر حکومت کرنے والے، اور قیصر وکسری کو لرزہ بر اندام کردینے والے فرمانروائے اعظم خلیفۃ المسلمین امیرالمومنین حضرت عمر بن خطاب کا ایک ضعیفہ کی خاطر رک کر پوری گفتگو سننا اس بات کی دلیل ہے کہ کسی بھی انسان کی قدر و منزلت میں اس کی ظاہری شکل وصورت، خاندانی وجاہت، مال کی کثرت اور دنیاوی اعزاز ومنصب کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا، بلکہ سارا اعتبار اللہ ورسول کی بارگاہ میں مقبولیت کا ہوتا ہے، جو اللہ ورسول کی بارگاہ میں مقبول ہے وہ قابل قدر اور لائق تعظیم ہے، خواہ وہ کسی بھی خطے اور قبیلے سے تعلق رکھتا ہو۔ ارشاد باری ہے:
اِنَّ اَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقٰىكُمْ.[سورۂ حجرات: ۱۳]
یعنی اللہ کے حضور تم میں سب سے زیادہ مکرم وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔
آج ہمیں بھی اس سنت فاروقی کو زندہ کرنے کی ضرورت ہے، اور ہر شخص کو اس کے علم وفضل اور اس کے زہد وورع کی بنیاد پر اہمیت دینے کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے۔آمین یا رب العالمین۔
please visit our youtube channel