مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 3 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
25 شعبان 1446
ایک جگہ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ ایک جگہ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ
سورۂ زمر اور سورۂ حدید میں دنیا کی بے ثباتی کا ذکر کیا گیا، لیکن دونوں جگہ الفاظ مختلف ہیں، سورۂ زمر میں فرمایا:
أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ فَسَلَكَهُۥ یَنَـٰبِیعَ فِی ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ یُخۡرِجُ بِهِۦ زَرۡعࣰا مُّخۡتَلِفًا أَلۡوَ ٰنُهُۥ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَىٰهُ مُصۡفَرࣰّا ثُمَّ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ إِنَّ فِی ذَ ٰلِكَ لَذِكۡرَىٰ لِأُو۟لِی ٱلۡأَلۡبَـٰبِ. [الزمر: ٢١]
اور سورۂ حدید میں فرمایا:
ٱعۡلَمُوۤا۟ أَنَّمَا ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَا لَعِبࣱ وَلَهۡوࣱ وَزِینَةࣱ وَتَفَاخُرُۢ بَیۡنَكُمۡ وَتَكَاثُرࣱ فِی ٱلۡأَمۡوَ ٰلِ وَٱلۡأَوۡلَـٰدِۖ كَمَثَلِ غَیۡثٍ أَعۡجَبَ ٱلۡكُفَّارَ نَبَاتُهُۥ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَىٰهُ مُصۡفَرࣰّا ثُمَّ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ عَذَابࣱ شَدِیدࣱ وَمَغۡفِرَةࣱ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَ ٰنࣱۚ وَمَا ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَاۤ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلۡغُرُورِ. [الحديد: ٢٠]
اس پر سوال یہ ہے کہ جب دونوں آیات کا مضمون ایک ہے، تو پھر ایک جگہ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ اور دوسری جگہ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ کیوں آیا ہے؟
مولانا محمد رفیق اشفاقی، باڑمیر، راجستھان
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 3 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
بلا شبہ دونوں آیات کا مضمون ومقصود ایک ہی ہے، لیکن دونوں آیات میں نسبت فاعلی الگ الگ ہے، جس کی بنیاد پر ایک جگہ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ اور دوسری جگہ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ آیا ہے، دونوں سورتوں کا بغور مطالعہ کریں تو وجہ فرق سمجھ میں آجائے گا، سورۂ زمر میں فرمایا:
أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ فَسَلَكَهُۥ یَنَـٰبِیعَ فِی ٱلۡأَرۡضِ ثُمَّ یُخۡرِجُ بِهِۦ زَرۡعࣰا مُّخۡتَلِفًا أَلۡوَ ٰنُهُۥ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَىٰهُ مُصۡفَرࣰّا ثُمَّ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ إِنَّ فِی ذَ ٰلِكَ لَذِكۡرَىٰ لِأُو۟لِی ٱلۡأَلۡبَـٰبِ. [الزمر: ٢١]
یعنی کیا تم نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا، اسے زمین میں موجود چشموں میں داخل فرمایا، پھر اسی سے مختلف قسم کی کھیتیاں اگاتا ہے، پھر وہ خشک ہو جاتی ہیں تو تم انھیں زرد دیکھتے ہو، پھر اللہ انھیں پارہ پارہ کر دیتا ہے، بے شک اس میں عقل والوں کے لیے نصیحت ہے۔
سورۂ حدید میں فرمایا:
ٱعۡلَمُوۤا۟ أَنَّمَا ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَا لَعِبࣱ وَلَهۡوࣱ وَزِینَةࣱ وَتَفَاخُرُۢ بَیۡنَكُمۡ وَتَكَاثُرࣱ فِی ٱلۡأَمۡوَ ٰلِ وَٱلۡأَوۡلَـٰدِۖ كَمَثَلِ غَیۡثٍ أَعۡجَبَ ٱلۡكُفَّارَ نَبَاتُهُۥ ثُمَّ یَهِیجُ فَتَرَىٰهُ مُصۡفَرࣰّا ثُمَّ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ وَفِی ٱلۡـَٔاخِرَةِ عَذَابࣱ شَدِیدࣱ وَمَغۡفِرَةࣱ مِّنَ ٱللَّهِ وَرِضۡوَ ٰنࣱۚ وَمَا ٱلۡحَیَوٰةُ ٱلدُّنۡیَاۤ إِلَّا مَتَـٰعُ ٱلۡغُرُورِ. [الحديد: ٢٠]
جان لو کہ دنیا کی زندگی لہو ولعب، زیب وزینت، آپسی فخر ومباہات اور مال و اولاد میں کثرت طلب کرنے سے عبارت ہے، دنیا کی مثال اس بارش کی سی ہے کہ جس کا اگایا ہوا سبزہ کاشتکار کو پسند آتا ہے، پھر وہ سوکھ جاتا ہے، تو تم اسے دیکھتے ہو کہ زرد ہو جاتا ہے، پھر ریزہ ریزہ ہو جاتا ہے، اور (کسی کے لیے) آخرت میں بڑا سخت عذاب ہے، اور (کسی کے لیے) اللہ کی طرف سے مغفرت اور خوشنودی ہے، دنیا کی زندگی تو محض دھوکے کا سامان ہے۔
دونوں آیات میں وجہ فرق سمجھنے کے لیے دونوں سورتوں کے الفاظ پر غور کریں، سورۂ زمر میں دیکھیں، فرمایا:
أَلَمۡ تَرَ أَنَّ ٱللَّهَ أَنزَلَ مِنَ ٱلسَّمَاۤءِ مَاۤءࣰ
یعنی اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔
اس آیت میں حرف مشبہ بالفعل کے معاً بعد کلمۂ جلالت ہے، اس کے بعد أَنزَلَ۔ فَسَلَكَهُۥ ۔ یُخۡرِجُ۔ تین فعل وارد ہوئے ہیں، ظاہر سی بات ہے کہ ان سب کا مرجع کلمہ جلالت ہوگا، اس کے بعد سبزے کے تین احوال بیان کیے،
ایک یہ کہ جب اگتا ہے تو اس کے رنگ مختلف ہوتے ہیں۔
دوسرے یہ کہ مقررہ مدت کے بعد سوکھ جاتا ہے۔
تیسرے یہ کہ پھر زرد ہوجاتا ہے۔
اس کے بعد فرمایا:
ثُمَّ یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ
یعنی جس رب نے سبزہ اگایا، اسے ہرا بھرا کیا، خشک کیا اور زرد کیا، وہی اس سبزے کو ریزہ ریزہ بناکر اڑاد دیتا ہے۔
اللہ خالق ازلی ہے، وہی مؤثر حقیقی ہے، اور وہی فاعل اصلی ہے، آیت کا آغاز بھی اسی کے ذکر سے ہوا ہے، تو تقاضائے کلام یہی ہے بعد کے سارے افعال کی ضمیر اسی کی طرف راجع ہو، تو أَنزَلَ۔ فَسَلَكَهُۥ ۔ یُخۡرِجُ۔ کی طرح یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ میں بھی اسی کو مرجع بنایا گیا، بطور خاص جب سبزہ اگانے کی نسبت اللہ کی طرف کی گئی ہے تو اسے ریزہ ریزہ کرنے کی نسبت بھی اللہ کی طرف ہونا چاہیے، تاکہ اس بات پر نص قائم ہو جائے کہ وہی وجود بخشتا ہے اور وہی فنا کرتا ہے، اسی نے یہ دنیا بنائی ہے اور وہی دنیا کو تباہ کرے گا اور قیامت قائم کرے گا۔
تو سورۂ زمر میں سیاق کلام میں کلمۂ جلالت کا ذکر ہے، اور افعال کی نسبت بھی اسی کی طرف ہے تو یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ فرمایا۔ لیکن سورۂ حدید کی مذکورہ آیت کے شروع میں اللہ کلمہ جلالت کا سرے سے ذکر ہی نہیں ہے، کہ یہاں پر بھی یَجۡعَلُهُۥ حُطَـٰمًاۚ کہا جا سکے، اسی لیے اگنے، سوکھنے اور زرد ہونے اور ریزہ ریزہ ہونے کی نسبت سبزے کی طرف کی گئی، اور فرمایا:
ثُمَّ یَكُونُ حُطَـٰمࣰاۖ
بالآخر وہ سبزہ ریزہ ریزہ ہوکر ختم ہو جاتا ہے۔
واقعی دنیا کی مثال بارش کے پانی سے اگنے والے سبزے کی طرح ہے، جو کاشت کار کو بڑا پسند آتا ہے، لیکن یہ بہار چند ہی دنوں کی ہوتی ہے، کیوں کہ ایک دن وہ سبزہ خشک ہوکر زرد ہوجاتا ہے، پھر ریزہ ریزہ ہوکر ختم ہوجاتا ہے۔ اور اللہ جس طرح سبزہ اگاتا اور مختلف مراحل سے گزار کر فنا کرتا ہے، بالکل اسی طرح دنیا کو بنانے کے بعد اسے فنا کردے گا اور قیامت قائم کرے گا۔
خلاصۂ کلام یہ کہ ہر جگہ وہی کلمہ آیا ہے جو اس مقام کے لیے زیادہ موزوں ہے۔
والله تعالى أعلم
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری