مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 15 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
12 شعبان 1446
آیت مبارکہ: یَغۡفِرُ لِمَن یَشَاۤءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاۤءُ
میں تقدیم وتاخیر کے اسرار ودروس
قرآن کریم میں اس بات کا جا بجا ذکر ہے کہ اللہ جسے چاہتا ہے معاف کردیتا ہے اور جسے چاہتا ہے عذاب دیتا ہے، فرمایا:
فَیَغۡفِرُ لِمَن یَشَاۤءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَشَاۤءُ (بقرہ/284)
اس مفہوم کی آیات میں عموماً پہلے مغفرت کا ذکر ملتا ہے اور بعد میں عذاب کا، حالاں کہ عذاب کے بعد مغفرت تو متصور ہے، لیکن مغفرت کے بعد عذاب متصور نہیں۔
علاوہ ازیں سورۂ مائدہ کی آیت نمبر 40 میں پہلے عذاب کا ذکر ہے، اور بعد میں مغفرت کا ہے، فرمایا:
أَلَمۡ تَعۡلَمۡ أَنَّ ٱللَّهَ لَهُۥ مُلۡكُ ٱلسَّمَـٰوٰتِ وَٱلۡأَرۡضِ یُعَذِّبُ مَن یَشَاۤءُ وَیَغۡفِرُ لِمَن یَشَاۤءُۗ وَٱللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَیۡءࣲ قَدِیرࣱ
اس جگہ عذاب کو مقدم کرنے اور مغفرت کو موخر کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 15 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
تقدیم و تاخیر کے بہت سے اسباب ہیں، جن میں ایک سبب یہ ہے کہ جو چیز زیادہ اہم یا محبوب ہوتی ہے اسے پہلے ذکر کیا جاتا ہے، اور یہ حقیقت جگ ظاہر ہے کہ اللہ کو بخشش بہت پسند ہے، اسی لیے بالعموم مغفرت کا ذکر پہلے ہوتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول دعاؤں میں ایک دعا یہ بھی ہے:
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ كَرِيمٌ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّى
سنن الترمذي، كتاب الدعوات، حديث نمبر 3855
یعنی اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے، اور تجھے بخشش بہت پسند ہے، مجھے معاف فرمادے۔
علاوہ ازیں اس تقدیم وتاخیر میں ہمارے لیے ترغیب وترہیب بھی ہے۔
ترغیب اس طور پر کہ جو چیز اللہ کو پسند ہو بندوں کو اس کے حصول کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہنا چاہیے، اسی لیے فرمایا:
وَسَارِعُوۤا۟ إِلَىٰ مَغۡفِرَةࣲ مِّن رَّبِّكُمۡ وَجَنَّةٍ عَرۡضُهَا ٱلسَّمَـٰوَ ٰتُ وَٱلۡأَرۡضُ أُعِدَّتۡ لِلۡمُتَّقِینَ.
[آل عمران: ١٣٣]
یعنی اللہ کی طرف سے ملنے والی مغفرت اور اس جنت کو پانے دوڑو جس کی وسعتیں آسمان وزمین کو محیط ہیں اور جو تقوی شعار بندوں کا مقدر ہے۔
ترہیب اس طور پر کہ اگر کوئی بندہ اللہ کی جانب سے مغفرت حاصل نہ کر سکا تو پھر اگلا مرحلہ عذاب کا ہے، جو انتہائی خوفناک ہے۔
مذکورہ بالا ترتیب ہی سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ مغفرت میں نا کامی کا انجام عذاب ہے، ورنہ حقیقت یہی ہے کہ اللہ کے یہاں معافی کے بعد عذاب کا تصور نہیں کیا جاسکتا۔
رہی بات سورہ مائدہ کی تو اس آیت سے پہلے چور اور چورنی کے ہاتھ کاٹنے کا ذکر ہے، جب پہلی آیت میں سزا کا ذکر ہے تو تقاضائے حال یہی ہے کہ اس سے متصل آیات میں پہلے سزا کا ذکر ہو پھر مغفرت کا تذکرہ ہو۔
علاوہ ازیں اس مقام پر عذاب کو مقدم کرنے سے ایک اور بات سمجھ میں آتی ہے اور وہ یہ کہ اللہ بڑا کریم ہے، وہ کسی پر ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، چہ جائے کہ کسی کو دوہری سزا دے، لہذا اگر کسی کو اس کے گناہ کی سزا دنیا ہی مل جائے تو اسے اللہ کی رحمت سے یہ امید رکھنا چاہیے کہ اس عذاب کے بعد مغفرت کا مژدہ ہوگا، اور آخرت میں بخشش کا پروانہ ملے گا۔
هذا ما عندي، والعلم عند ربي.
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری