مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 11 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
14 رجب 1446
بسم الله کے ساتھ کوئی فعل کیوں نہیں ہے؟
آیت مبارکہ: بِسۡمِ ٱللَّهِ ٱلرَّحۡمَـٰنِ ٱلرَّحِیمِ میں کوئی فعل کیوں نہیں ہے، جب کہ کلام عرب میں عام طور پر متعلقات فعل سے پہلے لازمی طور پر فعل مذکور ہوتا ہے، بلکہ خود قرآن کریم کی متعدد آیات میں جہاں اللہ کا نام لینے کا ذکر ہے وہاں پر بھی فعل مذکور ہے، فعل سے پہلے بھی ہے، اور فعل کے بعد میں بھی، پہلے کی مثال ہے:
ٱقۡرَأۡ بِٱسۡمِ رَبِّكَ ٱلَّذِی خَلَقَ. [العلق: ١]
اور بعد کی مثال ہے:
بِسۡمِ ٱللَّهِ مَجۡرٜىٰهَا وَمُرۡسَىٰهَاۤۚ إِنَّ رَبِّی لَغَفُورࣱ رَّحِیمࣱ. [هود: ٤١]
اب سوال یہ ہے کہ جیسے دوسرے مقامات پر بِسۡمِ ٱللَّهِ کے ساتھ فعل ہے، معروف بسملہ میں کیوں نہیں ہے؟؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 11 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
☘️🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه🌹☘️
بلاشبہ معروف بسملہ میں فعل مذکور نہیں ہے، اس کی ایک اہم وجہ تعمیم ہے، یعنی ہر جائز اور مباح کام کے شروع میں بسم اللہ پڑھنے کا حکم ہے، اس پر عمل کی یہی ایک صورت ہے کہ بسم اللّٰہ سے پہلے یا بعد میں کوئی فعل ذکر نہ کیا جائے، تاکہ ہر جگہ بآسانی بسم اللّٰہ پڑھا جا سکے، اس کے بر خلاف اگر بسم الله سے پہلے یا بعد میں أقرأ، أتلو یا اسی کے مثل کوئی فعل ذکر کر دیا جاتا تو بسم الله صرف تلاوت یا قراءت کے ساتھ خاص ہو جاتا، کسی بھی جائز یا مباح کام سے پہلے بسم الله أقرأ کہنے کی گنجائش نہیں ہوتی، جس طرح کھانے پینے اور لکھنے پڑھنے سے پہلے:
بِسۡمِ ٱللَّهِ مَجۡرٜىٰهَا وَمُرۡسَىٰهَاۤۚ إِنَّ رَبِّی لَغَفُورࣱ رَّحِیمࣱ.
کی گنجائش نہیں ہے، کیوں کہ اس بِسۡمِ ٱللَّهِ کے بعد جو مَجۡرٜىٰهَا وَمُرۡسَىٰهَاۤ مذکور ہے اس کی وجہ سے سفر کے علاوہ دیگر مقامات پر اس کلمہ کو پڑھنے کی گنجائش ختم ہوگئی، اگر معروف بِسۡمِ ٱللَّهِ کے ساتھ بھی کوئی فعل ہوتا تو ہر جگہ نئے بسم اللہ کی ضرورت پیش آتی، لوگوں کے لیے مشقت بڑھ جاتی، اور بہت سے افراد بسم اللہ کی برکتوں سے محروم ہو جاتے، اسی لیے بسم اللہ کے فعل کو ذکر نہیں کیا گیا،
والله تعالیٰ أعلم.
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری