میں ہوں اس کا، وہ ہے مرا
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء وإمام المرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
مجھے نہیں معلوم کہ میں اس دنیا میں کب آیا، لیکن جب بھی آیا اپنے اختیار سے نہیں آیا، کیوں کہ میں بے کس و مجبور تھا، مجھے کسی شے پر قدرت نہیں تھی، اور مجھے کسی چیز کا علم بھی نہیں تھا، ظاہر سی بات ہے کہ ایسی بے کسی کے عالم میں عدم سے وجود کا حیرت انگیز سفر میرے لیے نا ممکن تھا، لیکن کسی نے مجھ میں روح پھونک دی، میرے لیے زندگی مقدر کردی، میری روزی، روٹی کا بند وبست کردیا، میری سعادت وشقاوت کا فیصلہ کردیا، پھر اپنے اختیار سے مجھے دنیا میں بھیج دیا، جب میں نے دنیا میں قدم رکھا تو مجھے نہیں معلوم تھا کہ زندگی کے لیے سانس لینا ضروری ہے، اسی نے مجھے سانس لینا سکھایا، میں نہیں جانتا تھا کہ زندگی کے لیے کھانا پینا ضروری ہے، اسی نے مجھے کھانا، پینا سکھایا، مجھےخبر نہیں تھی کہ بات کیسے کی جاتی ہے، اسی نے مجھے گفتگو کا سلیقہ سکھایا،مجھے کسی چیز کا علم نہیں تھا، اسی نے مجھے اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا،سونا جاگنا اور لکھنا پڑھناسکھایا،اس نے مجھے قوت وطاقت بخشی، علم وہنر سے نوازا، فہم وفراست عطا کی،شعوروآگہی کی دولت سے مالا مال کیا، نیک مقاصد ، بلند عزائم، عظیم اخلاق، کامیاب زندگی اور روشن مستقبل کی فکر عطا کی، مختصر یہ کہ اس نے مجھےبے حساب عطا کیا، اورہر گام پر میری دستگیری کی، بھوک لگی تو کھانا حاضر کردیا، پیاس لگی تو پانی عطا کردیا، بیماری لاحق ہوئی تو دوا فراہم کردی،مصیبت آئی تو غیب سے مدد کردی، اورکسی بھی معاملے میں کوئی رکاوٹ در پیش ہوئی تو بڑی آسانی سے ٹال دی،میں نے بہت جلدی محسوس کرلیا کہ اس مادی دنیا میں وہی ہر درد کی دوا ہے، وہی ہر پریشانی کا حل ہے، وہی ہر غم کا مداوا ہے، کیوں کہ میں نے بڑے نشیب وفراز دیکھے، لیکن کبھی اس کی عنایتوں میں کوئی کمی نہیں دیکھی، بڑے قلق واضطراب سے گزرا، لیکن کبھی اس نے مایوس نہیں کیا، بڑے درد وکرب کا سامنا کیا، لیکن اس نےکبھی مجھے بے یار و مددگار نہیں چھوڑا، میں نے اس مہربان کو کبھی نہیں دیکھا، لیکن ہمیشہ اس کی مہربانیاں دیکھیں، ہر پل اس کی نوازشیں، ہر سحر اس کی عنایتیں، ہر جگہ اس کی رحمتیں۔
سچ پوچھیں تو اس کی محبتوں کا احساس اس وقت دوبالا ہوگیا جب میں ایک طویل بیماری سے شفایاب ہوا، میں سوچتا تھا کہ زندگی صحت وراحت سے عبارت ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں بیماریوں کی کمی نہیں، ایک نہیں جاتی کہ دوسری آجاتی ہے، ایک سے راحت نہیں ملتی کہ دوسری دبوچ لیتی ہے، لیکن یہ بھی عجب معاملہ ہے کہ جب بیماری، صحت پر غالب آکر منھ چڑاتی ہےتو وہ مہربان بیماری کی کمر توڑ کرصحت مند زندگی کی لذتوں سے آشنا کردیتا ہے، بڑا مہربان ہے وہ، واقعی بڑا مہربان ہے،آخر اس کی کس کس مہربانی کا ذکر کروں، اس کی نوازشیں بے انتہا ہیں۔
علاوہ ازیں میں نے اپنی مختصر سی زندگی میں گرد وپیش کا ماحول دیکھا تو سمجھ میں آیا کہ زندگی کا یہ خوب صورت سفر خوشی اور غم، صحت ومرض، امیری اور غریبی سے ہوکر ایک دن اختتام پذیر ہو جاتا ہے، زندگی دینے والا موت کی نیند سلادیتا ہے، ماں کی گود میں پروان چڑھانے والا قبر کی آغوش میں لٹادیتا ہے، آخر یہ کونسی ہستی ہے جس کی حکومت ہر جگہ ہے، خشک وتر پر اسی کا قبضہ ہے، ظاہر وباطن پر اسی کا غلبہ ہے، قلیل وکثیر پر اسی کا جلوہ ہے، سب اس کے ایک اشارے کے پابند اور اس کے زیر تصرف ہیں، میرے پاس اس بااختیار اور مہربان بادشاہ کے تعارف کےلیے الفاظ نہیں ہیں، اور اس کا بجا تعارف مجھ جیسے حقیر انسان سے ممکن بھی نہیں، اس کا صحیح تعارف تو حضرت سیدنا ابراہیم علیہ السلام کے ان الفاظ میں ہوسکتا ہے، کہ:
قَالَ اَفَرَءَيْتُمْ مَّا كُنْتُمْ تَعْبُدُوْنَۙ۰۰۷۵ اَنْتُمْ وَ اٰبَآؤُكُمُ الْاَقْدَمُوْنَٞۖ۰۰۷۶ فَاِنَّهُمْ عَدُوٌّ لِّيْۤ اِلَّا رَبَّ الْعٰلَمِيْنَۙ۰۰۷۷ الَّذِيْ خَلَقَنِيْ فَهُوَ يَهْدِيْنِۙ۰۰۷۸ وَ الَّذِيْ هُوَ يُطْعِمُنِيْ وَ يَسْقِيْنِۙ۰۰۷۹ وَ اِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِيْنِ۪ۙ۰۰۸۰ وَ الَّذِيْ يُمِيْتُنِيْ ثُمَّ يُحْيِيْنِۙ۰۰۸۱ وَ الَّذِيْۤ اَطْمَعُ اَنْ يَّغْفِرَ لِيْ خَطِيْٓـَٔتِيْ يَوْمَ الدِّيْنِؕ۰۰۸۲ ۔ [ سورۂ شعرا: ۷۵-۸۲]
آپ نے فرمایا: اے منکرو! تم اور تمھارے باپ دادا جن کی عبادت کیا کرتے تھے وہ میرے دشمن ہیں، میرا دوست تو بس وہی ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے، جس نے مجھے پیدا کیا اوروہی مجھے ہدایت دیتا ہے، جو مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے، جب میں بیمار ہو جاؤں تو وہ مجھے شفا عطا کرتا ہے، اور وہی مجھے موت وحیات سے ہم کنارکرتا ہے، اور اسی سے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری لغزشوں کو معاف فرمائے گا۔
میں ہوں بندہ وہ مولیٰ کون ہے اپنا اس کے سوا
میں ہوں اس کا وہ ہے مرا جس نے بنایا اور پالا
وہ ہے منزہ شرکت سے پاک سکون وحرکت سے
کام ہیں اس کے حکمت سے کرتا ہے سب قدرت سے
آؤ، عزم کریں کہ ہمیشہ اسی پر توکل کریں گے، اس کے فیصلوں پر راضی رہیں گے، اس کی نعمتوں کاشکر کریں گے، اس کی آزمائشوں پر صبر کریں گے، اس کے احکام پر عمل پیرا رہیں گے، اسی کی طرف رجوع کرتے رہیں گے ، اوریوں دعا کرتے رہیں گے کہ
اللہ یوں ہی عمر گزر جاۓ ہماری
سر خم ہو در پاک پہ اور ہاتھ اٹھا ہو