میں اپنے رب کا محتاج ہوں
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على سيد الأنبياء وإمام المرسلين، وعلى آله وأصحابه أجمعين، ومن تبعهم بإحسان إلى يوم الدين.
تصوف وسلوک،حکمت ودانائی اور تراجم وسوانح کی کتابوں کا مطالعہ کریں،جو تاثیر وانقلاب قرآن کریم کی ایک آیت، بلکہ اس کے کسی ایک جز میں پائیں گےبڑی بڑی کتابوں میں نہیں پائیں گے، مثال کے طور پر آیت کریمہ:
رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ۔
دیکھیں، اس میں کیسے کیسے اسرار ورموز ہیں، اس آیت مبارکہ کو پڑھنے کے بعد دل ودماغ پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہیں۔
1 – یہ آیت حضرت سیدنا موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کی ایک دعا ہے، واقعہ یہ ہے کہ آپ مصر سےمدین کی طرف تشریف لے گئے، راستے میں حضرت سیدنا شعیب علیہ الصلاۃ والسلام کی عفت مآب بیٹیوں کی بکریوں کو سیراب کیا، پھر ایک درخت کے ساۓمیں بیٹھ کر اپنے رب کے حضور یوں عرض گزار ہوئے:
رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ۔ [ سورۂ قصص، آیت نمبر: 24]
یعنی خدایا! تو میری جانب جو بھی خیر نازل فرمائے میں اس کا محتاج ہوں۔
2 – اس آیت مبارکہ میں نزول خیر اور نوازشات کی نسبت اللہ ہی کی طرف کی گئی ہے؛ تاکہ یہ حقیقت روز روشن کی طرح واضح ہوجائے کہ ہمارے پاس جو بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی عطا کی ہوئی ہیں، فرمایا:
وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ [ سورۂ نحل، آیت نمبر: ۵۳]
یعنی تمھارے پاس جو بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی عطا کردہ ہیں۔
3 – نعمت کو خیر سے تعبیر فرمایا، تاکہ بندے ان نعمتوں کو کار ہائے خیر کےلیے استعمال کریں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ بندے ان نعمتوں کا غلط استعمال کرکے اپنے ہی لیے شر کے دروازے کھول لیتے ہیں۔
4 – کلمۂ خیر کو نکرہ اور اس سے پہلے مِنْ َ لاکر خیر میں تعمیم کردی؛ تاکہ بندے کو اس بات پر کامل یقین ہوجائے کہ وہ اپنے رب کی جانب سے ملنے والے ہر خیر کا ہمہ وقت محتاج ہے۔
اور یقیناً بندہ جس طرح آسمان وزمین کا محتاج ہے، بالکل اسی طرح زمین پر گری سوئی کو اٹھانے کےلیے چھوٹی چھوٹی انگلیوں پر جڑے باریک ناخنوں کا بھی محتاج ہے۔ بندہ جس طرح چاند وسورج کا محتاج ہے، بالکل اسی طرح صاف وشفاف ہوا لینےکےلیے ناک کے نتھنوں تلے اگنے والے لطیف بالوں کا بھی محتاج ہے۔ بندہ جس طرح عقل وخرد کا محتاج ہے، بالکل اسی طرح دانتوں میں اٹکے ہوئے گوشت کے چھوٹے سےٹکڑے کو نکال باہر کرنےکےلیے ایک معمولی اور بے قیمت تنکے کا بھی محتاج ہے، مختصر یہ کہ بندہ اپنے رب سے ملنے والے ہر خیر کا محتاج ہے۔
5 – آیت کے اخیر میں فرمایا کہ بندہ فقیر اور اپنے رب کا محتاج ہوتا ہے، اور یہی بندے کا کامل تعارف بھی ہے، اگر کسی عام انسان کے دائیں ہاتھ میں ساتوں آسمان اور بائیں ہاتھ میں ساتوں زمینیں سمیٹ کر رکھ دی جائیں، تب بھی وہ شہنشاہ ہفت اقالیم اللہ رب العالمین کا بندہ اور اسی کا محتاج رہے گا، فرمایا:
يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ اَنْتُمُ الْفُقَرَآءُ اِلَى اللّٰهِ١ۚ وَ اللّٰهُ هُوَ الْغَنِيُّ الْحَمِيْدُ۔ [سورۂ فاطر : 15]
یعنی اے لوگو! تم سب اللہ ہی کے محتاج ہو، اور اللہ سب سے بے نیاز ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل میں ہے کہ ایک دفعہ حضرت ایوب علیہ الصلاۃ والسلام غسل کر رہے تھے کہ اسی دوران سونے کے پروانے گرنے لگے، آپ نے انھیں سمیٹنا شروع کیا، غیب سے آواز آئی کہ اے ایوب! کیا ہم نے تمھیں فراخی اورخوش حالی عطا نہیں کی؟ تو پیغمبر صبر ورضا، نبی اوَّاب، حضرت سیدنا ایوب علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا کہ مولا! میں تجھ سے کبھی بھی مستغنی نہیں ہوسکتا۔ سچ ہے:
رَبِّ اِنِّيْ لِمَاۤ اَنْزَلْتَ اِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيْرٌ۔ [سورۂ قصص، آیت نمبر: 24]
خداوندا! تو مجھے ہمیشہ اپنا ہی محتاج رکھ، کبھی کسی دوسرے کا محتاج نہ بنا، میری عزت تیرے در کی فقیری سے ہے، میرا امان تیرے خوف سے ہے، میرا اطمینان تیرے اضطراب محبت سے ہے، تجھے تیری عزت و جلال کا واسطہ مجھے اپنے حضور فروتنی کی عزت وآبرو سے محروم نہ کر، اور مجھ سے اپنی بندگی کا وقار واپس نہ لے۔
اسی در پر تڑپتے ہیں، مچلتے ہیں ، بلکتے ہیں اٹھا جاتا نہیں، کیا خوب اپنی ناتوانی ہے