بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده و نصلي و نسلم على رسوله الكريم ، و على أله و اصحابه اجمعين

Anwarul Quraan

کائنات کی نہیں، خالق کائنات کی تعریف کرو

کائنات کی نہیں، خالق کائنات کی تعریف کرو

Table of Contents

کائنات کی نہیں، خالق کائنات کی تعریف کرو

محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
یکم ذی الحجہ 1444/ 20 جون 2023

اللہ وحدہ لاشریک کا ارشاد ہے

الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا١ؕ مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ١ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ١ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ۰۰۳ ۔ [سورۂ ملك: ٣]

یعنی اللہ وہ ہے جس نے ایک کے اوپر ایک سات آسمان بنائے، تمھیں رحمن کی تخلیق میں کوئی خلل نظر نہیں آئے گا، نظر اٹھا کر دیکھو، آسمانوں میں تمھیں کوئی شگاف نظر آرہا ہے؟

اس آیت میں دو باتیں بتائی گئیں، ایک یہ کہ اللہ نے طبق در طبق سات آسمان بنائے، جس کا ذکر آیت کے ابتدائی جز

الَّذِيْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ طِبَاقًا

میں ہے۔

دوسرے یہ کہ ان آسمانوں میں کہیں شگاف یا عدم توازن نہیں ہے، جس کا ذکر آیت کے درمیانی اور آخری جز

 مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ١ؕ فَارْجِعِ الْبَصَرَ١ۙ هَلْ تَرٰى مِنْ فُطُوْرٍ

میں ہے۔

عربی زبان کا ایک عام اسلوب یہ ہے کہ جب کسی شے کا ذکر پہلی بار ہوتا ہے تو اس کے لیے اسم ظاہر ذکر کیا جاتا ہے، دوبارہ اسی اسم یا اس سے متعلق کسی چیز کا ذکر کرنا ہو تو اس کے لیے عموماً ضمیر کا استعمال کیا جاتا ہے، لیکن پیش نظر آیت مبارکہ کا اسلوب عام استعمالات سے مختلف ہے، کیوں کہ اس آیت میں پہلے سات آسمانوں کا ذکر ہوا، جس کے لیے اسم ظاہر سَبْعَ سَمٰوٰتٍ ذکر کیا گیا، پھر انھی آسمانوں میں عدم توازن یا شگاف نہ ہونے کا ذکر کیا گیا، جس کے لیے نہ ضمیر لائی گئی نہ اسم ظاہر کا ذکر کیا گیا، بلکہ فرمایا:

مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ مِنْ تَفٰوُتٍ

اس آیت مبارکہ میں سَبْعَ سَمٰوٰتٍ کے بعد ما ترى فيهن کے بجائے مَا تَرٰى فِيْ خَلْقِ الرَّحْمٰنِ کہہ کر ایک خاص نکتے کی طرف اشارہ کیا گیاہے، وہ یہ کہ کسی بھی شے پر غور کرنے کے دو طریقے ہوسکتے ہیں

ایک یہ کہ کسی شے پر بحیثیت شے غور کیا جائے، یعنی اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرکے شے میں پوشیدہ محاسن و کمالات تک رسائی حاصل کی جائے، اور اسی ادراک ومعرفت کو اپنی تحقیق کی انتہا اور اصل کامیابی تصور کیا جائے۔

دوسرے یہ کہ کسی شے پر بحیثیت مخلوق غور کیا جائے، یعنی شے کا بغور مطالعہ کرکے اس میں پوشیدہ اسرار و محاسن کو تلاش کیا جائے، پھر ان محاسن وکمالات کے ذریعے خالق کے وجود، اس کی بے مثال قدرت اور اس کے حسن تخلیق پر دلیل لائی جائے، اس طرح شے کے بجائے اس کے خالق تک رسائی کو اپنے مطالعہ و تحقیق کا مقصود تصور کیا جائے۔

جو لوگ کسی بھی شے کا بحیثیت شے مطالعہ کرتے ہیں وہ اسی شے تک محدود رہ جاتے ہیں، شے کی معرفت انھیں خدا کے وجود اور اس کی قدرت کا معترف نہیں بناتی، سائنس دانوں نے کائنات میں پھیلی ہزاروں چیزوں کی حقیقت دریافت کرلی، لیکن انھیں خدا کی معرفت حاصل نہ ہوسکی، کیوں کہ انھوں نے کائنات کا بحیثیت مخلوق مطالعہ نہیں کیا، اگر یہ حضرات کائنات میں پھیلی نشانیوں کے اسرار ومحاسن کے ساتھ ساتھ ان کے خالق ومصور کی تلاش جاری رکھتے تو ضرور حق آشنا ہوجاتے، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔

اسی لیے قرآن کریم نے کسی بھی شے کا بحیثیت مخلوق مطالعہ کرنے کا حکم دیا، جس کی واضح نظیر پیش نظر آیت ہے، جس میں پہلے آسمانوں کا ذکر کیا، پھر ان آسمانوں کو اللہ کی بے مثال تخلیق کا خوب صورت مظہر  قرار دیا، اور فرمایاکہ یہ  رحمن کی تخلیق ہے،دیکھو تمھارے مہربان رب نے ان آسمانوں کو کس طرح بلند، مضبوط اور بے عیب بنایا، کیا تمھیں تمھارے مہربان رب کی اس خوب صورت تخلیق میں کوئی عیب  نظر آتاہے؟ کہیں کوئی عدم توازن یا  شگاف نظر آتاہے؟اوراگر نظرنہیں آتا، تو یہ ان آسمانوں کا کمال نہیں، بلکہ خلاق اکبر کا کمال ہے جس انھیں  بغیر ستونوں کے بلند کیا اور ان میں کہیں کوئی شگاف نہیں رکھا۔

جو لوگ مظاہر فطرت پر غور کرتے ہیں اور اس بات پر یقین رکھتے ہیں یہ کائنات از خود وجود میں نہیں آسکتی، وہ اس وسیع کائنات کے پس پردہ کار فرما لا متناہی قدرتوں پر یقین کر لیتے ہیں، اور بزبان حال کہتے ہیں:

رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هٰذَا بَاطِلًا١ۚ سُبْحٰنَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ۔ [سورۂ آل عمران: ١٩١]

مولی! تو ہی اس جہان رنگ وبو کا خالق ہے، تو نے یہ جہان عبث اور بے کار نہیں بنایا، تو ہر طرح کے عبث سے پاک ہے، کائنات میں پھیلی نشانیاں دکھا کر اپنی معرفت عطا فرمانے والے پروردگار! ہمیں دوزخ کی آگ سے محفوظ فرما۔

بلاشبہ یہ وسیع وعریض کائنات اللہ کی واضح نشانی اور اس کی غالب قدرتوں کا مظہر ہے، یہ کائنات متلاشیان حق کے لیے کھلی ہوئی کتاب کی طرح ہے، جو لوگ اس کے روشن صفحات کا مطالعہ کرتے ہیں، اور سنجیدگی سے تدبر کرتے ہیں، وہ خالق کائنات کے وجود وحیات، اس کے علم وقدرت، اور اس کے تصرفات واختیارات کے معترف ہوجاتے ہیں، یہی مطالعہ کائنات کا اصل مقصد ہے۔

محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

خادم التدريس بالجامعة الاشرفية ، مبارك فور ، اعظم جره

All Posts

Share TO Your Social Networks

Scroll to Top