مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 17 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
14 شعبان 1446
سورۂ ھود میں نَذِیرࣱ وَبَشِیرࣱ کیوں وارد ہوا ؟
قرآن کریم کی جن آیات میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صفت تبشیر وانذار کا ذکر ہے ان میں عام طور پر پہلے بشير یا مبشر آتا ہے، بعد میں نذير یا منذر آتا ہے، مثلا سورۂ فاطر میں ہے:
إِنَّاۤ أَرۡسَلۡنَـٰكَ بِٱلۡحَقِّ بَشِیرࣰا وَنَذِیرࣰاۚ وَإِن مِّنۡ أُمَّةٍ إِلَّا خَلَا فِیهَا نَذِیرࣱ [فاطر: ٢٤]
لیکن سورۂ ھود میں اس کے برعکس ہے، فرمایا:
أَلَّا تَعۡبُدُوۤا۟ إِلَّا ٱللَّهَۚ إِنَّنِی لَكُم مِّنۡهُ نَذِیرࣱ وَبَشِیرࣱ
[هود: ٢]
آخر سورۂ ھود میں ترتیب کیوں بدلی گئی؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 17 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اہل ایمان کو جنت کی بشارت دیتے ہیں اور ایمان نہ لانے والوں کو عذاب آخرت سے با خبر کرتے ہیں، اسی لیے قرآن کریم میں جا بجا آپ کے لیے بشیر ونذیر اور مبشر ومنذر وغیرہ کلمات آئے ہیں، جہاں دونوں کا ذکر ہوتا ہے وہاں عموماً پہلے تبشیر پھر انذار کا ذکر ہوتا ہے،
لیکن جہاں صرف کفار کا ذکر ہو وہاں تبشیر کو مقدم نہیں کیا جاسکتا، کیوں کہ ان کے پاس کوئی ایسا عمل نہیں ہوتا جس پر انھیں خوش خبری دی جائے، ہاں وہ انذار کے اہل ضرور ہوتے ہیں، اسی لیے ان کے حق میں پہلے انذار کا ذکر ہوگا، اور ممکن ہے کہ ان میں انذار نفع بخش ثابت ہو جائے تو اس اعتبار سے انذار کے بعد تبشیر کا ذکر کیا جا سکتا ہے۔
اس وضاحت کے بعد سورۂ ھود کی ابتدائی آیات کے مضمون پر غور کریں، ان میں کفار کا ذکر ہے، اسی لیے پہلے آپ کو نذير کہا، پھر بشیر کہا، فرمایا:
أَلَّا تَعۡبُدُوۤا۟ إِلَّا ٱللَّهَۚ إِنَّنِی لَكُم مِّنۡهُ نَذِیرࣱ وَبَشِیرࣱ
صرف اللہ کی بندگی کرو، بے میں تمھیں اس کے عذاب سے ڈراتا ہوں اور اس کے ثواب کی بشارت دیتا ہوں۔
والله تعالى أعلم
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری