مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 16 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
13 شعبان 1446
ایک ہی مضمون میں ایک جگہ قَلِیلࣰا مَّا تُؤۡمِنُونَ اور دوسری جگہ قَلِیلࣰا مَّا تَذَكَّرُونَ کیوں؟
اللہ وحدہ لا شریک کا ارشاد ہے:
فَلَاۤ أُقۡسِمُ بِمَا تُبۡصِرُونَ ٣٨ وَمَا لَا تُبۡصِرُونَ ٣٩ إِنَّهُۥ لَقَوۡلُ رَسُولࣲ كَرِیمࣲ ٤٠ وَمَا هُوَ بِقَوۡلِ شَاعِرࣲۚ قَلِیلࣰا مَّا تُؤۡمِنُونَ ٤١ وَلَا بِقَوۡلِ كَاهِنࣲۚ قَلِیلࣰا مَّا تَذَكَّرُونَ ٤٢ تَنزِیلࣱ مِّن رَّبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ ٤٣﴾ [الحاقة ٣٨-٤٣]
یعنی قسم ہے ان چیزوں کی جنھیں تم دیکھتے ہو اور ان کی بھی جنھیں تم نہیں دیکھتے، بے شک یہ قرآن معزز رسول کا پڑھا ہوا کلام ہے، یہ کسی شاعر کا کلام نہیں، تم بہت کم یقین رکھتے ہو، یہ کسی کاہن کا قول نہیں، تم بہت کم سمجھتے ہو، یہ اللہ رب العالمین کی طرف سے اتارا ہوا کلام ہے۔
ان آیات مبارکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت اور قران کی حقانیت کا اثبات کیا گیا ہے، ان آیات کو پڑھنے کے بعد بطور خاص دو سوالات ذہن میں گردش کرتے ہیں، اور وہ یہ ہیں۔
1- رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن کی تلاوت سننے کے بعد کفار آپ کو صرف شاعر یا کاہن نہیں کہتے تھے، بلکہ آپ کو ساحر، کذاب اور مجنوں بھی کہا کرتے تھے، لیکن ان آیات میں قران کریم نے صرف آپ کے شاعر اور کاہن ہونے کی نفی کی، صرف انھی دو کی نفی پر اکتفا کرنے کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
2- جب شاعر ہونے کی نفی کی تو فرمایا:
قَلِیلࣰا مَّا تُؤۡمِنُونَ۔
یعنی تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔
اور جب کاہن ہونے کی نفی کی تو فرمایا:
قَلِیلࣰا مَّا تَذَكَّرُونَ۔
تم بہت کم سمجھ رکھتے ہو۔
آخر دونوں الزامات غلط ہیں، تو شاعری کی نفی کے ساتھ ایمان، اور کہانت کی نفی میں نصیحت کو ذکر کرنے میں کیا حکمت ہو سکتی ہے؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 16 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
1- نبی کریم روف رحیم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی زبان حق بیان سے قران کریم کی تلاوت سننے کے بعد کفار آپ کی شان رفیع میں نازیبا کلمات کہا کرتے تھے، آپ کو مفتری، ساحر، کذاب، مجنوں، شاعر اور کاہن وغیرہ کہا کرتے تھے، قران کریم نے مذکورہ بالا آیات میں ان تمام افتراءات کی واضح طور نفی کردی، البتہ اتنا ضرور ہے کہ شاعر اور کاہن ہونے کی نفی صریح الفاظ میں کی، اور باقی اتہامات کی نفی رَسُولࣲ كَرِیمࣲ کے ضمن میں کی، وہ اس طور پر کہ کفار آپ کو رسول تو نہیں مانتے تھے، لیکن آپ کو معزز، عالی نسب اور صاحب وجاہت ضرور مانتے تھے، اور سبھی لوگ جانتے ہیں کہ جو معزز ہوتا ہے وہ نہ مفتری ہو سکتا ہے نہ مجنوں، نہ ساحر ہوسکتا ہے نہ کذاب،
تو جب قران نے آپ کو رَسُولࣲ كَرِیمࣲ کہا تو گویا ان تمام گستاخانہ کلمات کی نفی ہوگئی جن سے کفار کی دریدہ دہنی عیاں ہے، لیکن شاعر اور کاہن ہونے کی نفی نہیں ہوئی، کیوں کہ عربوں میں شاعر اور کاہن کی بڑی اہمیت تھی، تو قرآن کریم نے ان کو مستقلاً ذکر کیا، اور فرمایا کہ نہ یہ کسی شاعر کا کلام ہے اور نہ ہی کسی کاہن کا۔
اس طرح ان آیات بینات میں اللہ وحدہ لاشریک نے حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے لیے ذکر کیے جانے والے تمام نازیبا کلمات کی نفی کر دی، جس سے لازمی طور پر یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ قرآن کلام بشر نہیں، بلکہ کلام الہی ہے، فرمایا:
تَنزِیلࣱ مِّن رَّبِّ ٱلۡعَـٰلَمِینَ۔
علامہ ابن عاشور نے اپنی تفسیر التحرير والتنوير میں یہی توضیح فرمائی ہے۔
دوسرے سوال کا جواب یہ ہے کہ عرب بخوبی جانتے ہیں کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم شاعر نہیں ہیں، کیوں کہ آپ سے کوئی شعر منقول نہیں ہے، نیز آپ جو کلام پیش کرتے ہیں وہ شعر نہیں، کیوں کہ شعر منظوم، موزوں اور مقفی ہوتا ہے، جب کہ کلام الہٰی میں شعری وزن یا قافیہ بندی نہیں ہوتی، اس کے با وجود کفار آپ کو شاعر کہتے تھے اور آپ کے پیش کردہ کلام الہٰی کو شعر کہا کرتے تھے، یہ کھلا ہوا تعنت اور صریح انکار ہے، اسی لیے شاعری کی نفی میں فرمایا:
قَلِیلࣰا مَّا تُؤۡمِنُونَ.
تم بہت کم ایمان رکھتے ہو۔
اس کے بالمقابل کہانت کا معاملہ ایسا نہیں ہے، کیوں کہ کہانت بھی نثر ہی کی ایک قسم ہے، اس میں جملے مختصر، متوازن اور مربوط ہوتے ہیں، بہت حد تک مسجع اور مقفی ہوتے ہیں، یہ اوصاف قرآنی آیات میں نظر آتے ہیں، لہٰذا اگر کوئی بد خواہ قرآنی آیات کو کہانت بتا کر ورغلانا چاہے تو اول نظر میں دھوکہ ہوسکتا ہے، ہاں اگر معمولی فکر وتدبر سے کام لیا جائے تو واضح ہو جائے گا کہ قرآن اپنے نظم ومعنی کے اعتبار سے کلام الہٰی ہے، کہانت کاہنوں کی ذہنی اپج ہے، اور دونوں میں کوئی مناسبت نہیں ہے، اسی لیے کہانت کے باب میں فرمایا:
قَلِیلࣰا مَّا تَذَكَّرُونَ۔
تم بہت کم سمجھتے ہو۔
تفسیر بیضاوی اور تفسیر ابو السعود میں اس اشکال کی یہی توضیح کی گئی ہے، قاضی بیضاوی کے الفاظ یہ ہیں:
وذَكَرَ الإيمانَ مَعَ نَفْيِ الشّاعِرِيَّةِ والتَّذَكُّرَ مَعَ نَفْيِ الكاهِنِيَّةِ، لِأنَّ عَدَمَ مُشابَهَةِ القُرْآنِ لِلشِّعْرِ أمْرٌ بَيِّنٌ لا يُنْكِرُهُ إلّا مُعانِدٌ بِخِلافِ مُبايَنَتِهِ لِلْكِهانَةِ، فَإنَّها تَتَوَقَّفُ عَلى تَذَكُّرِ أحْوالِ الرَّسُولِ ومَعانِي القُرْآنِ المُنافِيَةِ لِطَرِيقَةِ الكَهَنَةِ ومَعانِي أقْوالِهِمْ.
والله تعالى أعلم، وعلمه أتم وأحكم.
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری