مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 14 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
7 شعبان 1446
🌹 سورۂ دهر میں یُطَافُ اور یَطُوفُ کیوں🌹
سورۂ دهر میں جنت اور اس کی نعمتوں کے ذکر کے باب میں ایک جگہ ہے:
وَیُطَافُ عَلَیۡهِم بِـَٔانِیَةࣲ مِّن فِضَّةࣲ وَأَكۡوَابࣲ كَانَتۡ قَوَارِیرَا۠ [الإنسان: ١٥]
اور دوسری جگہ ہے:
وَیَطُوفُ عَلَیۡهِمۡ وِلۡدَ ٰنࣱ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَیۡتَهُمۡ حَسِبۡتَهُمۡ لُؤۡلُؤࣰا مَّنثُورࣰا [الإنسان: ١٩]
دونوں آیات میں یُطَافُ یا یَطُوفُ کیوں نہیں ہے، ایک جگہ فعل معروف اور ایک جگہ مجہول لانے کی وجہ کیا ہو سکتی ہے؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 14 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
سورۂ دہر کی آیت نمبر 15 میں وَیُطَافُ عَلَیۡهِم فعل مجہول اور آیت نمبر 19 میں وَیَطُوفُ عَلَیۡهِمۡ فعل معروف وارد ہوا، اس کی وجہ یہ سمجھ میں آتی ہے کہ یہی سیاق کلام کا تقاضا ہے اور اسی میں مقتضائے حال کی رعایت ہے، اس کو سمجھنے کے لیے سورۂ دہر کے مضمون پہ غور کریں، اس سورت میں اللہ وحدہ لا شریک نے سب سے پہلے تخلیق انسان کا ذکر کیا اور فرمایا:
إِنَّا خَلَقۡنَا ٱلۡإِنسَـٰنَ مِن نُّطۡفَةٍ أَمۡشَاجࣲ نَّبۡتَلِیهِ فَجَعَلۡنَـٰهُ سَمِیعَۢا بَصِیرًا [الإنسان: ٢]
یعنی بے شک ہم نے انسان کو مخلوط نطفے سے پیدا کیا، اسے سننے اور دیکھنے والا بنایا۔
پھر فرمایا کہ ان میں بعض بندے شکر گزار ہیں اور بعض ناشکرے ہیں، پھر دونوں کا انجام بیان کیا، کفار کا اجمالاً بیان کیا، اور مومنوں کا تفصیلی طور پر بیان کیا، پھر نیک بندوں کے کچھ اوصاف شمار کرانے کے بعد بیان فرمایا:
وَجَزَىٰهُم بِمَا صَبَرُوا۟ جَنَّةࣰ وَحَرِیرࣰا [الإنسان: ١٢]
یعنی اللہ ان کو ان کے صبر کے عوض جنت اور وہاں کا ریشمی لباس عطا فرمائے گا۔
اس کے بعد اگلی دس آیات میں لف ونشر مرتب کے طور پر انھی دو نعمتوں کی تفصیل کی، آیت نمبر 21 میں جنت کے سبز ریشمی لباس اور چاندی کے کنگنوں کا ذکر کیا، لیکن اس سے پہلے کی آٹھ آیتوں میں جنتی نعمتوں کا تذکرہ فرمایا، اس میں بھی پہلے نعمتوں کا ذکر کیا، بعد میں نعمتوں کو فراہم کرنے والے خدام کا ذکر کیا، جب نعمتوں کا ذکر کرنا مقصود ہوا تو فعل مجہول ذکر کیا، تاکہ ساری توجہ نعمتوں پر مرکوز رہے، فرمایا:
وَذُلِّلَتۡ قُطُوفُهَا تَذۡلِیلࣰا. [الإنسان:
پھلوں کو اہل جنت سے قریب کردیا گیا۔
مزید فرمایا:
وَیُسۡقَوۡنَ فِیهَا كَأۡسࣰا كَانَ مِزَاجُهَا زَنجَبِیلًا. [الإنسان: ١٧]
انھیں ایسا جام پلایا جائے گا جس میں ادرک کی آمیزش ہوگی۔
اور جب اہل جنت کے خدام کا ذکر کرنا مقصود ہوا تو فعل معروف ذکر کیا، اور ان کے اوصاف بیان ، فرمایا:
وَیَطُوفُ عَلَیۡهِمۡ وِلۡدَ ٰنࣱ مُّخَلَّدُونَ إِذَا رَأَیۡتَهُمۡ حَسِبۡتَهُمۡ لُؤۡلُؤࣰا مَّنثُورࣰا۔ [الإنسان: ١٩]
ان پر بے ہمیشہ رہنے والے جوان گردش کریں گے، جب ان کی آمد ورفت دیکھوگے تو محسوس کروگے کہ بکھرتے موتی ہیں۔
اہل جنت کے لیے جیسے جنتی نعمتیں اہم ہیں، ویسے ان نعمتوں کو پہنچانے والے غلمان بھی اہم ہیں، اسی لیے دونوں کو مستقلاً ذکر فرمایا، اگر نعمتوں کے ساتھ خدام یا خدام کے ضمن میں نعمتوں کا ذکر کیا جاتا تو دونوں کی جدا گانہ اہمیت واضح نہیں ہوتی، اسی لیے پہلے یُطَافُ کے ذریعے نعمتیں شمار کرائی گئیں، پھر یَطُوفُ فعل معروف ذکر کرکے خدام کی اہمیت وزینت واضح کی گئی۔
شاید اسی مقصد کی تکمیل کے لیے ایک جگہ یُطَافُ عَلَیۡهِم، فعل مجہول اور دوسری جگہ یَطُوفُ عَلَیۡهِمۡ فعل معروف لایا گیا،
والله تعالى أعلم
تفصیل کے لیے دیکھیں درة التنزيل وغرة التأويل
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری