مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 12 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
18 رجب 1446
کچھ لوگ تلاش کر منفرد اور unique نام رکھتے ہیں، کیا اس میں کوئی حرج ہے، کیا اس سلسلے میں قرآن کریم سے کوئی راہنمائی مل سکتی ہے؟
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 12 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
🌹🌹 الجواب بعون الله وتوفيقه 🌹🌹
منفرد نام رکھنے میں کوئی حرج نہیں، بشرطے کہ معنی خیز اور نام رکھنے کے شرعی اصولوں سے متصادم نہ ہو، قرآن کریم میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے نام کے حوالے سے فرمایا:
یَـٰزَكَرِیَّاۤ إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَـٰمٍ ٱسۡمُهُۥ یَحۡیَىٰ لَمۡ نَجۡعَل لَّهُۥ مِن قَبۡلُ سَمِیࣰّا [مريم: ٧]
اے زکریا: ہم تمھیں ایک ایسے فرزند کی بشارت دیتے ہیں جس کا نام یحییٰ ہے، اور ہم نے اس سے پہلے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔
اس آیت میں حضرت یحییٰ علیہ السلام کے نام رکھنے کا ذکر کرنے کے بعد فرمایا کہ ہم نے زکریا کے فرزند کو پہلی دفعہ اس نام سے موسوم کیا، جس سے منفرد نام رکھنے کا جواز فراہم ہوتا ہے، اس آیت کے تحت تفسیر نسفی میں ہے:
وهَذا دَلِيلٌ عَلى أنَّ الِاسْمَ الغَرِيبَ جَدِيرُ بِالأثَرَةِ
[تفسیر نسفی متعلقہ آیت]
یعنی یہ آیت دلیل ہے اس بات پر کہ نادر اور منفرد نام قابل ترجیح ہوتے ہیں،
والله تعالى أعلم
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری