مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 1 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
20 شعبان 1446
كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ اور كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ میں فرق
اللہ وحدہ لا شریک نے سورۂ نبا میں فرمایا:
كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ ٤ ثُمَّ كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ ٥
[النبأ ٤-٥]
اور سورۂ تکاثر میں فرمایا:
كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ ٣ ثُمَّ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ ٤
[التكاثر ٣-٤]
سورہ نبأ میں سَیَعۡلَمُونَ صیغہ غائب اور سورۂ تکاثر میں سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ صیغہ خطاب کیوں لایا گیا؟
اسی طرح سورۂ نبأ میں سَیَعۡلَمُونَ سين برائےاستقبال قریب اور سورۂ تکاثر میں سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ سوف براے استقبال بعید لایا گیا، اس فرق کی وجہ کیا ہوسکتی ہے؟
مولانا احمد رضا مصباحی، ممبئی
الجواب بعون الله وتوفيقه
دونوں سورتوں کا سیاق کلام مختلف ہے، اسی لیے ایک جگہ صیغہ غائب اور دوسری جگہ صیغہ خطاب آیا ہے، یوں ہی دونوں مقامات پر متکلم کی کیفیت مختلف ہے اسی بنیاد پر سورۂ نبا میں سَیَعۡلَمُونَ اور سورۂ تکاثر میں سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ آیا ہے۔
اس کو سمجھنے کے لیے دونوں سورتوں کی ابتدائی آیات کو بغور دیکھیں، سورہ نبأ میں
فرمایا:
عَمَّ یَتَسَاۤءَلُونَ.
یعنی یہ لوگ باہم کس چیز کے بارے میں سوال کر رہے ہیں؟
بطورِ جواب خود ہی فرمایا:
عَنِ ٱلنَّبَإِ ٱلۡعَظِیمِ ٱلَّذِی هُمۡ فِیهِ مُخۡتَلِفُونَ
ایک عظیم خبر کے بارے میں سوال کر رہے ہیں، جس میں ان کی رائے مختلف ہے۔
اس کے معًا بعد فرمایا:
كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ
انھیں اختلاف سے باز آجانا چاہیے، کیوں کہ وہ عن قریب یعنی وقت وفات جان جائیں گے، پھر فرمایا:
ثُمَّ كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ
پھر حکم ہے کہ باز آجائیں، وہ عن قریب یعنی قیامت کے دن جان جائیں گے۔
(مذاکرۂ قرآن : سوال نمبر 1 ، از : محمد حبیب اللہ بیگ ازہری)
ان آیات پر غور کریں، یہاں گفتگو ان لوگوں کے حوالے سے ہے جن کے پیش نظر قیامت ہے، کیوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب کفار کو قیامت اور عذاب آخرت سے ڈرایا تو وہ اسی قیامت کے حوالے سے گفتگو کرنے لگے، کوئی تردد کا شکار ہوا، تو کوئی سرے سے انکار کر بیٹھا، کوئی سچ ماننے کو تیار ہوا تو کوئی ورغلانے میں کامیاب ہوگیا۔
یعنی سب کی زبانوں پر قیامت کا ذکر ہے، اور اس کا متوقع منظر ان کے تصور سے بہت زیادہ قریب ہے، تو سین برائے استقبال قریب کے ساتھ فرمایا:
كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ ثُمَّ كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ
عنقریب یہ لوگ حقیقت حال سے واقف ہو جائیں گے، جب وہ دنیا سے جائیں گے تو علم یقینی حاصل ہو جائے گا، اور جب قبروں سے اٹھائے جائیں گے، اور اپنی نظروں سے قیامت کو دیکھ لیں گے تو کامل یقین ہو جائے گا۔
اس کے برخلاف سورۂ تکاثر میں ان لوگوں کا ذکر ہے جو فکر دنیا میں مشغول ہوکر یاد آخرت سے یکسر غافل ہو چکے تھے تو فرمایا:
أَلۡهَىٰكُمُ ٱلتَّكَاثُرُ حَتَّىٰ زُرۡتُمُ ٱلۡمَقَابِرَ
یعنی مال واولاد میں کثرت کی طلب نے تم کو اس حد تک غافل کر دیا کہ تم نے قبروں کا منہ دیکھ لیا۔
اس کے بعد فرمایا:
كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ ثُمَّ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ
اس عمل سے باز آجاؤ، جلد ہی جان جاؤ گے۔ پھر حکم ہے کہ خواب غفلت سے بیدار ہو جاؤ، جلد ہی جان جاؤ گے۔
یہاں پر خطاب ان لوگوں سے ہے جو دنیا طلبی اور مال کی فراوانی کی فکر میں اس حد تک غافل ہو چکے تھے کہ اب ان کے دل و دماغ سے قیامت کا تصور مٹ چکا تھا، تو فرمایا کہ وہ چیز جو تمہارے تصور سے بہت زیادہ دور ہے اسے ایک دن جان جاؤ گے، انتقال کے وقت جان جاؤ گے اور جب آخرت میں اٹھایا جائے گا اس وقت یقینی طور پر مان جاؤ گے۔
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ
سورۂ نبا میں جن کا ذکر ہے قیامت ان کے تصور سے قریب ہے تو فرمایا:
كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ ثُمَّ كَلَّا سَیَعۡلَمُونَ
سورۂ تکاثر میں جن کا ذکر ہے قیامت ان کے تصور سے بہت دور ہے تو فرمایا:
كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ ثُمَّ كَلَّا سَوۡفَ تَعۡلَمُونَ
یعنی ہر جگہ وہی کلمہ آیا ہے جس کا سیاق کلام اور حال متکلم متقاضی ہے۔
والله تعالى أعلم
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری