بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده و نصلي و نسلم على رسوله الكريم ، و على أله و اصحابه اجمعين

قرآنی تعلیمات کی نشر واشاعت کا بہترین مرکز

انوار القرآن

The Best Key for Quranic Knowledge

Anwarul Quraan

تحدیث نعمت کا بڑھتا ہوا دائرہ

تحدیث نعمت کا بڑھتا ہوا دائرہ

تحدیث نعمت کا بڑھتا ہوا دائرہ

محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

بندے پر ضروری ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرے، اور ہر ممکن طریقے سے ادا کرے، ادائے شکر کے بہت سے طریقے ہیں، جن میں ایک معروف طریقہ تحدیث نعمت کا بھی ہے، ارشاد باری ہے:

وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ۔ [سورۂ ضحىٰ: 11]

یعنی اپنی رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

تحدیث نعمت کا یہ مطلب ہے کہ بندہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں کا برملا اظہار کرے، اور اپنے طرز حیات سے بطور خاص اپنے قول وعمل اور خوراک وپوشاک سے اس بات کی شہادت دے کہ اللہ نے بے انتہا نعمتوں سے نوازا ہے، بڑی خوش حال اور اطمینان بخش زندگی عطا فرمائی ہے۔

کسی کو دوسرے کی نیت پر شک کرنے کی اجازت نہیں، تاہم دیکھنے، سننے سے جو بات سمجھ میں آتی ہے وہ یہ ہے کہ جب کسی کو اپنی تعریف کرنا ہوتی ہے، یا دوسروں کو اپنی خدمات سے آگاہ کرنا مقصود ہوتا ہے تو تحدیث نعمت کا خوب صورت لیبل لگا کر تعریف وتوصیف کا سلسلہ شروع کر دیا جاتاہے، بسا اوقات یہ سلسلہ اس قدر دراز ہوجاتا ہے کہ تحدیث نعمت کا دور دور تک پتا ہی نہیں رہتا۔اسی لیے بطور تحدیث نعمت کچھ کہنے یا لکھنےسے پہلے درج ذیل امور پر توجہ لازم وضروری ہے۔

1- تحديث نعمت کا تعلق صرف زبان سے نہیں، بلکہ زبان اور دل دونوں سے ہے، اسی لیے بطور تحديث نعمت کچھ کہنے سے پہلے دل کا جائزہ لینا ضروری ہے، اگر واقعی دل میں تحدیث نعمت کے نیک جذبات کار فرما ہوں، دل کے گوشے گوشے سے ﴿وَاَسْبَغَ عَلَيْكُمْ نِعَمَهٗ ظَاهِرَةً وَّ بَاطِنَةً﴾ کی صدائیں بلند ہورہی ہوں، اور انگ انگ اس بات کی شہادت دے رہا ہو کہ ﴿وَ مَا بِكُمْ مِّنْ نِّعْمَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ﴾ تو زبان سے بطور تحديث نعمت کچھ کہنے کا جواز فراہم ہوجاتا ہے، اور اگر معاملہ اس کے بر عکس ہے، یعنی دل میں داد خواہی کے جذبات ہیں، اور زبان پر تحديث نعمت کا خوب صورت استعارہ ہے تو ایسے افراد کو ہوش کے ناخن لینا چاہیے، اور اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کرلینا چاہیے کہ :

يَعْلَمُ خَآىِٕنَةَ الْاَعْيُنِ وَ مَا تُخْفِي الصُّدُوْرُ۔   [سورۂ غافر: ۱۹]

یعنی اللہ آنکھوں کی خیانت اور دلوں کے پوشیدہ راز کو جانتا ہے۔

قیامت کے دن سب کا حساب ہوگا، اور ہر ایک کو سزا وجزا کے مراحل سے گزرنا ہوگا۔

2- تحديث نعمت کا معنی ہے: اللہ کی نعمت کا تذکرہ، لہٰذا جب بھی بطور تحدیث نعمت کچھ بیان کیا جائے تو اللہ اور اس کی نعمتوں کا ذکر کیا جائے، اور اسی پر اکتفا کیا جائے، اور اگر کسی وجہ سے اپنا ذکر نا گزیر ہو تو اللہ اور اس کی نعمتوں کا ذکر اصالۃ ًاور حقیقۃ ًکیا جائے، اور اپنا ذکر ضمناً اور تبعا ً کیا جائے۔

قرآن کریم نے بڑے واضح الفاظ میں بیان فرما دیا ہے کہ تحدیث نعمت کا اسلوب کیا ہونا چاہیے، اور تحدیث نعمت کے باب میں صالحین کا طرز عمل کیسا رہا ہے، قرآن کریم میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے تحدیث نعمت کا ذکر کچھ اس طرح ہے:

وَ لَقَدْ اٰتَيْنَا دَاوٗدَ وَ سُلَيْمٰنَ عِلْمًا١ۚ وَ قَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ فَضَّلَنَا عَلٰى كَثِيْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِيْنَ۰۰۱۵ وَ وَرِثَ سُلَيْمٰنُ دَاوٗدَ وَ قَالَ يٰۤاَيُّهَا النَّاسُ عُلِّمْنَا مَنْطِقَ الطَّيْرِ وَ اُوْتِيْنَا مِنْ كُلِّ شَيْءٍ١ؕ اِنَّ هٰذَا لَهُوَ الْفَضْلُ الْمُبِيْنُ۰۰۱۶۔         [سورۂ نمل: ۱۵-۱۶]

یعنی ہم نے داؤد وسليمان کو علم سے نوازا، تو انھوں نے کہا: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا فرمائی، اور سلیمان داؤد کا وارث ہوا، اورکہا کہ ہمیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی، اورہمیں ہر شے سے حصہ دیا گیا، یہ سراسر فضل الٰہی ہے۔

ان آیات کے مطابق حضرات داؤد وسليمان علیہم السلام نے بطور تحدیث نعمت بیان فرمایا کہ انھیں خلق خدا پر فضیلت دی گئی، انھیں پرندوں کی بولی سکھائی گئی، اور ہر شےسے حصہ دیا گیا، لیکن انداز بیان دیکھیں کہ شروع میں اللہ کی حمد وثنا بیان کی، اور اخیر میں اس کے فضل و کرم کا ذکر فرمایا، اور کسی نعمت کے حوالے سےیہ نہیں فرمایا کہ ہم نے یہ کیا، ہم نے وہ کیا، بلکہ ہر نعمت کی نسبت اللہ کی  جانب کی، اور کہا کہ اللہ نے فضیلت بخشی، اللہ نے سکھایا، اور اللہ نے ہر  نعمت سے نوازا۔

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تحدیث نعمت میں منعم اور اس کی نعمتوں کا ذکر ہوتا ہے، اور اگر ضرورت محسوس ہوئی تو منعم علیہ ذکر ہوسکتا ہے، لیکن ضمناً اور تبعاً۔

3-  قرآن کریم نے جہاں تحديث نعمت کا حکم دیا وہیں اس بات کی بھی تعلیم دی کہ اپنی زبان سے اپنی تعریف مت کرو، کیونکہ اللہ سب کے ظاہری اور باطنی احوال سے با خبر ہے، اللہ جل وعلا کا رشاد ہے:

فَلَا تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى۔             [سورۂ نجم: ۳۲]

یعنی اپنی زبانی اپنی پاکی مت بیان کرو، وہ متقی بندوں کو خوب جانتا ہے۔

اس آیت میں خود ستائی یعنی اپنی زبان سے اپنی ہی تعریف کرنے، اور اپنی نیکیوں کا چرچا کرنے سے منع کیا گیا، اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ کو بخوبی معلوم ہے کہ کون قابل تعریف ہے، اور کون تقوی شعار ہے۔

اگر کوئی نیک اور پرہیزگار ہے تو اجر وثواب کا مستحق ہے، اگرچہ دنیا میں اس کے علم وفضل اور زہد وورع کا کوئی خطبہ پڑھنے والا نہ ہو، اور اگر کوئی عند اللہ قابل تعریف نہ ہو تو لاکھ اس کی تعریف کی جائے، کچھ بھی حاصل نہیں،لہٰذا  کسی بھی کام کی بنیاد تعریف وتوصیف پر نہ رکھی جائے، بلکہ اللہ کی رضا جوئی اور اس کےپیارے حبیبﷺ کی خوشنودی پر رکھی جائے، اور تحديث نعمت کا دائرہ اتنا بھی وسیع نہ کردیا جائے کہ خود بینی اور تعریف پسندی کا شبہ ہونے لگے۔اللہ تعالی ہم سب کو حسن عمل کی توفیق عطا فرمائے، آمین یا رب العالمین۔

وصلى الله تعالى على خير خلقه سيدنا ومولانا ومحمد وآله وصحبه أجمعين وبارك وسلم، برحمتك يا أرحم الراحمين

 

please visit our youtube channel

Share this page

اوپر تک سکرول کریں۔