منکوحہ عورتوں کے لیے قرآن میں وارد کلمات
کوئی دو ماہ پرانی بات ہے کہ ایک مضمون نظر سے گزرا جس میں سائل نے پوچھا کہ قرآن مجید میں بیوی کے لیے کہیں لفظ زوج آیا ہے اور کہیں امراة، قرآنی اصطلاح کے مطابق دونوں میں کوئی فرق ہے یا نہیں، اور اگر ہے تو وہ کیا ہے؟
جواب میں لکھا تھا کہ اگر مرد وعورت کے درمیان جسمانی تعلق کے ساتھ ساتھ ذہنی ہم آہنگی بھی ہو تو ایسے مقام پر لفظ زوجه آیا ہے۔ اور اگر صرف جسمانی تعلق ہو، اور عقیدے یا کسی اور وجہ سے ذہنی تعلق نہ ہو تو ایسی عورت کو امرأة سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اور اگر تعلق براے نام ہو، یا مطلقاً تعلق کی نفی مقصود ہو تو صاحبةآیا ہے۔اور ہر ایک دعوے پر قرآن کریم سے شواہد بھی پیش کیے گئے تھے۔
اول نظر میں یہ مضمون صحیح معلوم ہوتا ہے، لیکن گہرائی میں اتر کر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ حقیقت اس سے مختلف ہے، آئیے مسئلہ مبحوثہ کا تفصیلی مطالعہ کرتے ہیں۔
1۔ سب سے پہلے یہ واضح کر دیا جائے کہ قرآن کریم میں کہیں بھی لفظ زوجہ نہیں آیا ہے، بلکہ زوجہ کے لیے کہیں زوج اور کہیں ازواج آیا ہے، اور یہ لفظ جوڑے کے معنی میں آتا ہے، مرد عورت کا اور عورت مرد کا جوڑا ہوا کرتی ہے،اسی لیے ان کو زوج سے تعبیر کیا ہے۔
بلکہ اس سے بھی آگے آسمان وزمین، دن ورات اور سیاہ وسفید بھی قرآنی اصطلاح کے مطابق آپس میں ازواج یعنی جوڑے ہوتے ہیں، ایسے وسیع المعنی لفظ کو ایک خاص مفہوم کے ساتھ مختص نہیں کیا جاسکتا۔
2- مضمون نگار نے کہیں بھی یہ دعوی نہیں کیا کہ مفہوم زوجیت کے لیے صرف تین کلمات آئے ہیں، لیکن انداز بیان سے کچھ یہی سمجھ میں آتا ہے کہ مضمون نگار کے نزدیک معنی زوجیت کو بتانے کے لیے بس یہی تین کلمات آئے ہیں، حالانکہ ایسا نہیں، ہماری ناقص معلومات کی روشنی میں زوجہ کے مفہوم کی ادایگی کے لیے اور بھی کلمات آئے ہیں، جن کی تفصیل یہ ہے۔
3- قرآن کریم میں بیوی کے لیے کثرت کے ساتھ النساء آیا ہے، رمضان المبارک کی راتوں میں بیوی کے قریب جانے کی اباحت کا ذکر ان الفاظ میں ہے:
اُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ اِلٰى نِسَآىِٕكُمْ ۔ [سورۂ بقرہ: ۱۸۷]
اس کے علاوہ دسیوں مقامات پر النساء اور نسائكم وغیرہ کلمات وارد ہوئے ہیں۔
4- قرآن کریم میں بیویوں کے لیے أهل کا لفظ بھی آیا ہے، فرمایا:
فَلَمَّا قَضٰى مُوْسَى الْاَجَلَ وَ سَارَ بِاَهْلِهٖۤ اٰنَسَ مِنْ جَانِبِ الطُّوْرِ نَارًا١ۚ قَالَ لِاَهْلِهِ امْكُثُوْۤا اِنِّيْۤ اٰنَسْتُ نَارًا لَّعَلِّيْۤ اٰتِيْكُمْ مِّنْهَا بِخَبَرٍ اَوْ جَذْوَةٍ مِّنَ النَّارِ لَعَلَّكُمْ تَصْطَلُوْنَ۔ [سورۂ قصص: ۲۹]
یعنی موسی نے مقررہ مدت پوری کرلی اور اپنی اہلیہ کو لے کر روانہ ہوئے تو طور کی طرف آگ دیکھی، اپنی بیوی سے کہا: رکو میں نے آگ دیکھی ہے،ہوسکتا ہے کہ وہاں سے کوئی خبر یا آگ کا شعلہ لے کر آؤں تاکہ تم گرمی حاصل کرسکو۔
ان آیات میں اہل سے مراد بیوی ہی ہے، جیساکہ التفسیر الوسیط میں ہے۔
ان آیات کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں معنی زوجیت کو بتانے کے لیے زوج، امرأة اور صاحبةکے علاوہ دوسرے کلمات بھی وارد ہوئے ہیں ۔
5- مضمون میں یہ بات واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ جہاں جسمانی تعلق اور ذہنی ہم آہنگی دونوں ہوں وہاں لفظ زوج آیا ہے، جب کہ بہت سے ایسے مقامات پر بھی لفظ زوج آیا ہے جہاں ذہنی تعلق سمجھ میں نہیں آتا ہے، مثلا ًلعان کے سلسلے میں فرمایا گیا:
وَ الَّذِيْنَ يَرْمُوْنَ اَزْوَاجَهُمْ وَ لَمْ يَكُنْ لَّهُمْ شُهَدَآءُ اِلَّاۤ اَنْفُسُهُمْ فَشَهَادَةُ اَحَدِهِمْ اَرْبَعُ شَهٰدٰتٍۭ بِاللّٰهِ١ۙ اِنَّهٗ لَمِنَ الصّٰدِقِيْنَ۔ [سورۂ نور: ۶]
جہاں بد گمانی کے باعث لعان کی نوبت آ پہنچی ہو وہاں ذہنی ہم آہنگی کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا، پھر بھی قرآن نے یہاں بیویوں کو ازواج سے تعبیر فرمایا ہے۔
ظہار کے باب میں فرمایا:
وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔيْ تُظٰهِرُوْنَ مِنْهُنَّ اُمَّهٰتِكُمْ۔ [سورۂ احزاب: ۴]
تم اپنی جن بیویوں کے ساتھ ظہار کرتے ہو وہ تمہاری مائیں نہیں ہیں۔
جس عورت سے ظہار ہو اس کے ساتھ ذہنی ہم آہنگی چہ معنی دارد؟
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی، بلکہ قرآن کریم نے بیوہ عورتوں کو بھی ازواج سے تعبیر فرمایا، اور آئندہ جن سے نکاح ہوسکتا ہے ان کو ازواج سے تعبیر فر مایا، سورۂ بقرہ میں بیوہ عورتوں کے حوالے سے فرمایا:
وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا۔
یعنی جو تم میں فوت ہوجائیں، اور اپنے بعد بیویاں چھوڑ جائیں،وہ بیویاں چار مہینے دس دن خود کو نکاح سے روکے رکھیں۔[سورۂ بقرہ: ۲۳۴]
اور آئندہ نکاح میں آنے والی عورتوں کے حوالے سے دوسرے مقام پر فرمایا:
عَسٰى رَبُّهٗۤ اِنْ طَلَّقَكُنَّ اَنْ يُّبْدِلَهٗۤ اَزْوَاجًا خَيْرًا مِّنْكُنَّ۔ [سورۂ تحریم:۵]
ترجمہ: اگر وہ تمھیں طلاق دے دیں تو قریب ہےکہ ان کا رب انھیں تم سے زیادہ بہتر بیویاں عطا فرمادے۔
ان تمام آیات میں مذکورہ ضابطے کے بر خلاف ایسی خواتین کے لیے زوج اور ازواج وغیرہ کلمات وارد ہوئے ہیں جن سے ذہنی تعلق سمجھ میں نہیں آتا ہے۔
6- مضمون میں یہ بھی ہے جہاں جسمانی تعلق ہو اور عقیدے یا کسی وجہ سے ذہنی تعلق نہ ہو تو ایسے مقام پر امرأة آیا ہے، جب کہ متعدد مقامات پر اس ضابطے کے برخلاف ساتھ رہنے والی خواتین کو بھی امرأة سے تعبیر کیا گیا ہے، مثلا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زوجہ کے لیے فرمایا گیا:
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِيْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِيْمٌ۔[سورۂ ذاریات: ۲۹]
یہاں پر یہ تاویل کی جاسکتی ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ان کی اس بیوی سے اولاد نہیں تھی اسی لیے زوج کے بجائے إمرأة آیا ہے، لیکن حضرت عمران – جن کے نام پر سورۂ آل عمران ہے- کے پاس حضرت مریم جیسی مقدس بیٹی موجود تھیں، اس کے باوجود حضرت عمران کی زوجہ کے لیے امرأة آیا ہے، ارشاد باری ہے:
اِذْ قَالَتِ امْرَاَتُ عِمْرٰنَ رَبِّ اِنِّيْ نَذَرْتُ لَكَ مَا فِيْ بَطْنِيْ مُحَرَّرًا فَتَقَبَّلْ مِنِّيْ١ۚ اِنَّكَ اَنْتَ السَّمِيْعُ الْعَلِيْمُ۔ [سورۂ آل عمران: ۳۵]
یہاں پر بھی مذکورہ ضابطے کے مطابق زوج آنا چاہیے تھا، لیکن امرأة آیا ہے۔
7- مضمون میں یہ بھی ہے جہاں تعلق براے نام ہو وہاں صاحبہ آیا ہے، لیکن ایک جگہ قیامت کے دن کفار کے ساتھ ان کی بیویوں کے جہنم میں ڈالے جانے کا ذکر ہے، اور وہاں ان کی بیویوں کو ازواج سے تعبیر کیا گیا ہے، فرمایا:
اُحْشُرُوا الَّذِيْنَ ظَلَمُوْا وَ اَزْوَاجَهُمْ وَمَا كَانُوْا يَعْبُدُوْنَۙ۰۰۲۲ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ فَاهْدُوْهُمْ اِلٰى صِرَاطِ الْجَحِيْمِ۔ [سورۂ صافات: ۲۲ – ۲۳]
ظالموں کو اور ان کے جوڑوں کو اور اللہ کے سوا جن کی وہ عبادت کیا کرتے تھے سب کو جمع کرو، اور انھیں جہنم کے راستے پر ہانک دو۔
اس آیت میں ازواج کا لفظ آیا ہے، اور یہاں ازواج کی تحدید میں کئی اقوال ملتے ہیں، جن میں ایک قول کے مطابق یہاں ازواج سے مراد ان کی بیویاں ہیں، اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ اس آیت میں جسمانی تعلقات اور ذہنی ہم آہنگی کے فقدان کے با وجود بیویوں کے لیے ازواج کا لفظ آیا ہے۔
ان تمام آیات کی روشنی میں یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ قرآن کریم میں رشتہ زوجیت کو بتانے کے لیے مختلف کلمات ذکر کیے گئے ہیں، اور مقتضاے حال کے مطابق جہاں جو کلمہ موزوں تھا وہاں وہی کلمہ ذکر کیا گیا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔
قرآن کریم میں معرفہ اور نکرہ
please visit our youtube channel