قرآن کریم میں معرفہ اور نکرہ
عربی زبان میں اسم کی دو قسمیں ہیں، معرفہ اور نکرہ۔ معرفہ: وہ اسم ہے جو کسی معین شے کو بتائے، اور نکرہ: وہ اسم ہے جو کسی غیر معین شے کو بتائے، ان کی مثال الرجل اور رجل ہے، الرجل معرفہ ہے، اور اس کا معنی ہے: معروف ومتعین شخص۔ رجل نکرہ ہے، اور اس کا معنی ہے: کوئی بھی نامعلوم اور غیر متعین شخص۔
معرفہ، نکرہ کی تعریف اور ہر ایک کے درمیان واضح فرق کو سمجھنے کے بعد یہ بھی جاننا ضروری ہے کہ بسا اوقات ایک ہی جملے میں دو معرفہ یا دو نکرہ آجاتے ہیں، ایسے مواقع کے لیے ایک ضابطہ اکثری یہ ہے کہ جب معرفہ کی تکرار ہو تو دوسرے معرفہ سے بعینہ وہی فرد مراد ہوتا ہے جو پہلے معرفہ سے مراد تھا، اور اگر نکرہ کی تکرار ہو تو پہلے نکرہ سے جو فرد مراد تھا دوسرے نکرہ سے وہی فرد مراد نہیں ہوتا، بلکہ دوسرا فرد مراد ہوتا ہے، اسی لیے ائمہ نحو اس باب میں یہ ضابطہ بیان کرتے ہیں کہ تکرار معرفہ سے عین اول مراد ہوتا ہے، جبکہ تکرار نکرہ سے غیر اول مراد ہوتا ہے۔
ہم یہاں ایک ایسی آیت پیش کریں گے جس میں دو مختلف اسم نکرہ وارد ہوئے ہیں، جن میں ایک اسم نکرہ دو بار، اور دوسرا اسم نکرہ تین بار آیا ہے، اور ہر نکرہ ہر بار نئے معنی کا افادہ کرتا ہے، اس طرح ایک ہی آیت میں وارد ہونے والے دو اسم نکرہ سے پانچ جداگانہ معانی سامنے آتے ہیں، اور متعلقہ باب کے تمام گوشوں کا احاطہ ہوجاتا ہے۔اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَيْبَةً١ؕ يَخْلُقُ مَا يَشَآءُ١ۚ وَ هُوَ الْعَلِيْمُ الْقَدِيْرُ۔ [سورۂ روم: ۵۴]
یعنی اللہ وہ ہے جس نے تمھیں ایک ضعیف اور کمزور چیز سے پیدا فرمایا، پھر کمزوری کے بعد قوت بخشی، پھر قوت کے بعد کمزوری اور بالوں میں سفیدی بنائی، اللہ جو چاہتا ہے بناتا ہے، اور وہی علم اور قدرت والا ہے۔
اس آیت کریمہ میں تین دفعہ ضعف اور دو دفعہ قوۃ کا لفظ آیا ہے، اور سارے ہی کلمات نکرہ ہیں، اسی لیے ہر ایک کا معنی ومدلول الگ الگ ہے، اس کی قدرے تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
پہلا ضعف
اللہ تعالیٰ پہلے ضعف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
اَللّٰهُ الَّذِيْ خَلَقَكُمْ مِّنْ ضُؔعْفٍ ۔
یعنی اللہ نے انسان کو ایک ضعیف شے سے بنایا۔
یہاں ضعف سے نطفہ مراد ہے، جو انتہائی ضعیف اور کمزور ہوتا ہے، اور جس کو ایک دوسری آیت میں ماء مہین سے تعبیر کیا، اور فرمایا:
اَلَمْ نَخْلُقْكُّمْ مِّنْ مَّآءٍ مَّهِيْنٍ۔[سورۂ و المرسلات: ۲۰]
کیا ہم نے تمھیں حقیر پانی سے پیدا نہیں کیا۔
دوسرا ضعف
اللہ تعالیٰ دوسرے ضعف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ۔
یعنی پھر اس نے ضعف کے بعد قوت عطا کی
یہاں معنی ضعف کی تعیین کے سلسلے میں متعدد اقوال ملتے ہیں، ان اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ جب بچے کی صورت بن جاتی ہے، اور اس میں جان پڑ جاتی ہے اس وقت سے لے کر دنیا میں آنے اور چلنے پھرنے کی عمر کو پہنچنے تک ہر مرحلے میں بچہ ضعیف وناتواں ہوتا ہے، یعنی ابتداے خلق سے از خود کام کرنے کی عمر کو پہنچنے تک کا ہر مرحلہ ضعف سے عبارت ہوتا ہے، اسی لیے ان تمام مراحل کو ضعف سے تعبیر کیا جا سکتا ہے، شاید اسی وجہ سے مفسرین نے یہاں ضعف کی وضاحت کرتے ہوئے جنین، رضیع اور فطیم وغیرہ کلمات ذکر کیے ہیں، جن سے دوسرے مرحلہ ضعف کی نشاندہی ہوتی ہے۔
تیسرا ضعف
اللہ تعالیٰ تیسرے ضعف کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَيْبَةً۔
پھر ہم نے قوت کے بعد کمزوری اور بالوں میں سفیدی میں بنائی۔
سبھی لوگ جانتے ہیں کہ انسان جوانی اور ادھیڑ عمر گزارنے کے بعد بڑھاپے میں قدم رکھتا ہے، جس میں ایک طرف اعصاب کمزور ہوتے ہیں تو دوسرے طرف بال سفید ہونے لگتے ہیں، زندگی کے آخری مرحلے میں طاری ہونے والی اسی کمزوری اور بالوں کی سفیدی کو قرآن کریم نے ﴿ ضُؔعْفًا وَّ شَيْبَةً١ؕ ﴾سے تعبیر فرمایا ہے۔
بڑھاپا کئی طرح کا ہوتا ہے، کبھی صرف جسمانی کمزوری ہوتی ہے، اور کبھی جسمانی کمزوری کے ساتھ ساتھ سر کے بال سفید ہوجاتے ہیں، اور کبھی ان سب کے ساتھ ساتھ دماغی توازن بھی متاثر ہوجاتا ہے اور یاد داشت کمزور ہوجاتی ہے، اور کچھ ایسے افراد بھی ہوتے ہیں جن کی سماعت، بصارت سمیت سارے قوائے بدنیہ انتہائی کمزور بلکہ ناکارہ ہوجاتے ہیں، اس طرح زندگی کا یہ آخری مرحلہ مکمل طور پر ضعف اور کمزوری سے عبارت ہوتا ہے۔
پہلی قوت
اللہ تعالیٰ پہلی قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً۔
یعنی پھر کمزوری کے بعد قوت عطا کی۔
یہاں قوت سے مراد وہ قوت ہے جو ایام شیر خوارگی گزارنے کے بعد بچوں کے جسم میں بحال ہوتی ہے،ہم نے شروع ہی میں واضح کردیا تھا کہ مدت رضاعت بلکہ اس کے بعد کے ایام میں بھی بچہ کمزور اور ناتواں ہوتا ہے، پھر رفتہ رفتہ اس کی کمزوری ختم ہوتی ہے، اور بچے میں غیر معمولی قوت آجاتی ہے، اس مرحلے کی قوت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بچے اپنے بچپن میں صبح سے شام تک کھیلتے رہتے ہیں، نہ انھیں کہیں درد ہوتا ہے، نہ ہی کسی قسم کی تھکان محسوس ہوتی ہے، اللہ جل شانہ اسی عمر کی قوت کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:
ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ ضُؔعْفٍ قُوَّةً ۔
یعنی ہم نے بچوں کے نازک پٹھوں میں، کمزور ہڈیوں میں اور ناتواں جسم میں قوت ودیعت فرما دی، جس کے سبب وہ پیروں پر کھڑے ہونے، اور چلنے پھرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔
دوسری قوت
اللہ تعالیٰ دوسری اور آخری قوت کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے:
ثُمَّ جَعَلَ مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ ضُؔعْفًا وَّ شَيْبَةً۔
یعنی ہم نے پھر قوت کے بعد کمزوری اور بالوں میں سفیدی پیدا کی۔
یہاں قوت سے مراد جوانی اور ادھیڑ عمر کی قوت ہے، کیوں کہ جس قوت کے بعد بڑھاپا آتا ہے وہ جوانی ہی کی قوت ہے،قرآن کریم نے دوسری سورتوں میں بھی اس مرحلے کی قوت کا ذکر کیا ہے، لیکن اَشُدَّكُمْکے عنوان سے کیا ہے۔
مذکورہ بالا تفصیلی گفتگو کا خلاصہ یہ ہوا کہ انسانی زندگی کے پانچ مراحل ہیں۔
پہلے مرحلے میں وہ ایک نطفے کی شکل میں ہوتا ہے، اور انتہائی ضعیف اور کمزور ہوتا ہے۔
دوسرے مرحلے میں وہ جنین، رضیع اور فطیم ہوتا ہے، اور ان مراحل میں بھی وہ ضعیف وناتواں ہوتا ہے۔
تیسرے مرحلے میں وہ چلنے پھرنے کے قابل ہوتا ہے، اور اس مرحلے میں وہ قوی اور صحت مند ہوجاتا ہے۔
چوتھے مرحلے میں وہ جوان ہوجاتا ہے، اور اس مرحلے میں وہ انتہائی قوی اور طاقت ور ہوجاتا ہے۔
پانچویں اور آخری مرحلےمیں اس پر بڑھاپا طاری ہوتا ہے، اس مرحلے میں اس کے سارے قواے بدنیہ کمزور ہوجاتے ہیں، اور ایک صحیح وسالم اور تندرست انسان اعصابی کمزوری اور طرح طرح کی بیماریوں کا شکار ہوکر لقمۂ اجل بن جاتا ہے۔
قرآن کریم نے زندگی کے تمام مراحل کو اور پورے فلسفۂ حیات کو محض دو اسم نکرہ یعنی قوت وضعف کے ذریعے بیان فر مادیا، اگر یہ دونوں کلمات معرفہ ہوتے تو نہ معانی میں اتنی گنجائش ہوتی، نہ ہی مفاہیم میں اس قدر تنوع ہوتا، یہ قرآن ہی کا اعجاز ہے کہ اس نے دو اسم نکرہ کے ضمن میں انسانی زندگی کے تمام مراحل اور ان مراحل کی قوت وضعف کو بڑے واضح انداز میں بیان فرمادیا۔
قرآن مقدس نے ان تمام مراحل کے نام ذکر کرنے کے بجائے قوت وضعف کا ذکر کیا، اور انھیں دو کلمات کی تکرار کی، اس کی درج ذیل وجوہات سمجھ میں آتی ہیں۔
1- آیت مبارکہ میں قوت وضعف کے بجاے انسانی زندگی کے مختلف مراحل کے نام ذکر کیے جاتے تو صرف مراحل کا علم ہوتا، اس بات کا علم نہیں ہوپاتا کہ ان مراحل میں انسان کی کیا کیفیت ہوتی ہے؟ قرآن کریم نے قوت وضعف کو ذکر کیا، تاکہ جہاں مراحل حیات کا علم ہو وہیں ان مراحل کی قوت وضعف کی بھی نشاندہی ہوجائے۔
2 – قرآن کریم نے قوت وضعف کے درمیان انسان کی گردش کا ذکر کیا، تاکہ اس امر پر واضح دلیل قائم ہوجائے کہ جو رب انسان کو قوت سے ضعف اور ضعف سے قوت کی طرف منتقل کرنے پر قادر ہے وہ بعث بعد الموت پر بھی قادر ہے۔
3 – قرآن مجید نے واضح کردیا کہ انسان کی ابتدا بھی ضعف سے ہے اور اختتام بھی ضعف پر ہے، بلکہ زندگی کا بیشتر حصہ ضعف وناتوانی سے عبارت ہے، جو انسان اس قدر کمزور ہو اسے زیب نہیں دیتا کہ اللہ رب العالمین کے عائد کردہ احکام کی خلاف ورزی کرے، اور اپنی دنیا وآخرت کو برباد کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو قرآن سمجھ کر پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ، یا رب العالمین۔
please visit our youtube channel
رضائے الٰہی کے لیے قربانی
معرفہ اور نکرہ 19