بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده و نصلي و نسلم على رسوله الكريم ، و على أله و اصحابه اجمعين

قرآنی تعلیمات کی نشر واشاعت کا بہترین مرکز

انوار القرآن

The Best Key for Quranic Knowledge

Anwarul Quraan

قرآن فہمی کے لیے حدیث کی ضرورت

قرآن فہمی کے لیے حدیث کی ضرورت

کوئی دوسال پرانی بات ہے کہ میں سراج الفقہا، محقق مسائل جدیدہ حضرت مفتی نظام الدین صاحب قبلہ، صدر شعبۂ افتا وشیخ الحدیث جامعہ اشرفیہ، مبارک پور کی خدمت میں حاضر تھا، مختلف موضوعات پر گفتگو جاری تھی، دوران گفتگو فرقہ اہل قرآن کا تذکرہ چھڑ گیا، حضرت نے فرمایا کہ ایک دفعہ میرے پاس کچھ افراد آئے اور اپنے ساتھ ایک شخص کو لے کر آئے اور کہنے لگے کہ یہ شخص خود کو اہل قرآن بتاتا ہے، اور کہتا ہے کہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے، اسی لیے قرآن کے ہوتے ہوئے حدیث کی کوئی ضرورت نہیں، اور جب حدیث کی ضرورت نہیں تو کسی دوسری چیز کی بدرجہ اولیٰ ضرورت نہیں۔

حضرت مفتی صاحب قبلہ نے فرمایا کہ میں اس شخص کو دلائل کے ذریعے مطمئن کرتا رہا، لیکن وہ جب تک میری باتیں سنتا، سر ہلاتا، جی جی کرتا، پھر اخیر میں کہتا کہ جب قرآن میں سب کچھ ہے تو پھر حدیث کی کیا ضرورت ہے؟

حضرت نے فرمایا کہ جب میں نے محسوس کرلیا کہ یہ دلائل سے مطمئن ہونے والا نہیں ہے تو میں نے اس سے پوچھا کہ ذرا بتاؤ کتا کھانا حرام ہے یا حلال؟ اس نے کہا: حرام۔

میں نے کہا کہ جب قرآن کریم میں سب کچھ ہے تو یہ بتاؤ کہ قرآن کریم کی کس آیت میں لکھا ہے کہ کتا کھانا حرام ہے۔

اس نے کہا: میں عالم نہیں ہوں، اسی لیے اپنے علما سے پوچھ کر ایک ہفتے کے اندر بتاتا ہوں، ایک ہفتے کے بعد آیا اور کہا کہ ابھی ملا نہیں، کچھ دنوں بعد بتاتا ہوں، پھر کچھ دنوں بعد آیا اور کہا کہ تلاش بسیار کے باوجود نہیں ملا، بعد میں بتاتا ہوں۔

حضرت مفتی صاحب نے فرمایا کہ میں نے اس سے کہا کہ بتادوں کہ کتے کی حرمت کا ذکر کہاں ہے؟

اس نے کہا: ضرور بتائیں، نوازش ہوگی۔

مفتی صاحب نے فرمایا: پہلے یہ بتاؤ کہ کتا خبیث جانور ہے یا طیب اور پاکیزہ جانور؟

اس نے کہا کہ کتا تو خبیث جانور ہے۔

مفتی صاحب نے فرمایا کہ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

 وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ۔[سورۂ اعراف: ۱۵۷]

یعنی ان کے لیے طیب اور پاک چیزیں حلال ہیں، خبیث اور ناپاک چیزیں حرام ہیں، اور جب کتا خبیث جانور ہے تو قرآن کریم کی آیت کے مطابق وہ بھی حرام ہے۔

اس نے یہ جواب سن کر کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ ہم قرآن کریم میں اپنا جواب تلاش نہ کر سکے، لیکن خوشی  اس بات کی  ہے کہ آپ کے جواب سے بھی ہمارا ہی مدعا ثابت ہوا کہ جب قرآن کریم میں سب کچھ ہے تو پھر حدیث کی کوئی  ضرورت نہیں۔

مفتی صاحب نے فرمایا کہ تم نے صرف یہ دیکھا کہ قرآن کریم میں خبائث کے ضمن میں کتے کی حرمت کا ذکر ہے، لیکن یہ نہیں دیکھا کہ ان خبائث کو حرام کرنے والا کون ہے، اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:

الَّذِيْنَ يَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِيَّ الْاُمِّيَّ الَّذِيْ يَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِي التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِيْلِ١ٞيَاْمُرُهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ يَنْهٰىهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ يُحِلُّ لَهُمُ الطَّيِّبٰتِ وَ يُحَرِّمُ عَلَيْهِمُ الْخَبٰٓىِٕثَ وَ يَضَعُ عَنْهُمْ اِصْرَهُمْ وَ الْاَغْلٰلَ الَّتِيْ كَانَتْ عَلَيْهِمْ١ؕ فَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بِهٖ وَ عَزَّرُوْهُ وَ نَصَرُوْهُ وَ اتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِيْۤ اُنْزِلَ مَعَهٗۤ١ۙ اُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَؒ۰۰۱۵۷ ۔                                                        [سورۂ اعراف:۱۵۷]

مسلمان وہ ہیں جو اس رسول امی کی اطاعت کرتے ہیں جس کا ذکر توریت وانجیل میں ہے، جو بھلائی کا حکم دیتے ہیں، اور برائی سے روکتے ہیں، ان کے لیے پاک چیزیں حلال کرتے ہیں اور خبیث چیزیں حرام کرتے ہیں۔

تم نے کتے کی حرمت کا ذکر دیکھ کر کہہ دیا کہ قرآن کریم میں سب کچھ ہے، لیکن ذرا غور تو کرو کہ جس آیت سے کتے اور دیگر خبائث کی حرمت ثابت ہوتی ہے، اسی آیت سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ طیب کو حلال کرنے اور خبیث کو حرام کرنے والے اللہ کے  محبوب اور اس کے آخری رسول ہیں، یعنی  بحکم قرآن رسول اللہ ﷺ شارع ہیں، اور آپ کے ارشادات ہمارے لیے حجت ہیں، لہذا قرآن کریم میں سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہمارے لیے حدیث رسول کی ضرورت ہے، اشد ضرورت ہے، اور ہمہ وقت ضرورت ہے۔

مفتی صاحب کا یہ حیرت انگیز استدلال دیکھ کر وہ شخص خاموش اور لاجواب ہو گیا، اور یہ ماننے پر مجبور ہوگیا کہ اس  حقیقت کے باوجود کہ  قرآن میں سب کچھ ہے ہمیں قرآن فہمی کے لیے حدیث رسول کی ضرورت ہے، اور کیوں نہ ہو کہ حدیث قرآن ہی کی تفسیر ہے۔

یہاں اس حقیقت کی وضاحت ضروری ہے کہ اللہ  نے اپنے محبوب پر قرآن نازل کیا، لیکن اسی نزول پر اکتفا نہیں فرمایا، بلکہ آپ کو قرآن کی تعلیم دی، اس کے علوم ومعارف سے آگاہ کیا، اورآپ پر اس کے حقائق واسرار  منکشف کیے، فرمایا:

اِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهٗ وَ قُرْاٰنَهٗۚۖ۰۰۱۷ فَاِذَا قَرَاْنٰهُ فَاتَّبِعْ قُرْاٰنَهٗۚ۰۰۱۸ ثُمَّ اِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهٗؕ۰۰۱۹ ۔ [سورۂ  قیامہ:۱۷-۱۹]

بے شک اس قرآن کو  تمھارےسینے میں محفوظ کرنا اور اس  کی تلاوت  کرنا ہمارے ذمہ کرم پر ہے،  تو جب ہم اس کو پڑھ لیں تو ہمارے پڑھے ہوئے کی اتباع کرو، پھر اس کے حقائق ودقائق کو تم سے   بیان کرنا ہمارے ذمےہے۔

ان آیات بینات کے مطابق رسول اللہ ﷺ صاحب قرآن بھی ہیں اور واقف اسرار قرآن بھی ، لہٰذا  جس طرح آیات قرآن کے سلسلے میں لوگ آپ کے محتاج ہیں، بالکل اسی طرح فہم قرآن کے سلسلے میں بھی  آپ کی احادیث  مبارکہ اور سیرت طیبہ کےمحتاج ہیں ۔

بہر حال حضرت مفتی صاحب قبلہ کا یہ زبردست استدلال ان کے علمی استحضار، فقہی بصیرت اور قرآن کریم سے گہری وابستگی کی ایک خوب  صورت مثال ہے، اللہ تعالیٰ آپ کے علم وفضل میں روز افزوں ترقی عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔

1 خیال ”قرآن فہمی کے لیے حدیث کی ضرورت“ پر

  1. Pingback: عدت کے احکام قرآن کی روشنی میں - anwarulquraan.com

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔