بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده و نصلي و نسلم على رسوله الكريم ، و على أله و اصحابه اجمعين

قرآنی تعلیمات کی نشر واشاعت کا بہترین مرکز

انوار القرآن

The Best Key for Quranic Knowledge

Anwarul Quraan

عدت کے احکام قرآن کی روشنی میں

عدت کے احکام قرآن کی روشنی میں

قرآن مجید میں دو طرح کی عدتوں کا ذکر ہے:

۱- مطلقہ عورتوں کی عدت۔                        ۲- بیوہ عورتوں کی عدت۔

مطلقہ عورتیں چار طرح کی ہوسکتی ہیں۔

۱- حیض والی عورت، اس طرح کی عورتوں کی عدت تین حیض ہے، ارشاد باری ہے:

وَ الْمُطَلَّقٰتُ يَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ ثَلٰثَةَ قُرُوْٓءٍ۔         [سورۂ بقرہ: ٢٢٨]

یعنی طلاق یافتہ عورتیں تین حیض تک خود کو نکاح سے روکے رکھیں۔

مطلب یہ ہے کہ ان کی عدت تین حیض ہے، اس مدت کے گزر جانے کے بعد وہ دوسرے مردوں سے نکاح کر سکتی ہیں۔

2- کم سن یا سن ایاس کو پہنچی ہوئی عورت، اس طرح کی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے، فرمایا:

وَ الّٰٓـِٔيْ يَىِٕسْنَ مِنَ الْمَحِيْضِ مِنْ نِّسَآىِٕكُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُهُنَّ ثَلٰثَةُ اَشْهُرٍ١ۙ وَّ الّٰٓـِٔيْ لَمْ يَحِضْنَ۔           [سورۂ طلاق: ۴]

یعنی سن ایاس کو پہنچی ہوئی عورتوں کی عدت تین ماہ ہے، اور ان کی بھی جنھیں ابھی تک حیض کا خو ن  نہیں آیا۔

لہٰذا جن عورتوں کو صغر سنی یا کبر سنی کی وجہ سے ماہواری نہیں آتی ہے وہ تین ماہ تک عدت میں رہیں گی، اس کے بعد دوسروں کےلیے حلال ہوں گی۔

3-  حاملہ عورت، اس طرح کی عورتوں کی عدت وضع حمل ہے، ارشاد باری ہے:

وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔             [سورۂ طلاق: 4]

یعنی حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔

کیوں کہ وضع حمل کے بعد عورت کا رحم صاف ہوجاتا ہے،اسی لیے وہ دوسرے مرد سے نکاح کر سکتی ہے۔اسی طرح دوسرے مقام پر فرمایا:

 وَ اِنْ كُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَيْهِنَّ حَتّٰى يَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔[سورۂ طلاق: ۶]

یعنی مطلقہ عورتیں حاملہ ہوں تو وضع حمل تک ان کو نفقہ دو۔

کیوں کہ ایسی عورتیں وضع حمل تک عدت میں رہتی ہیں، وضع حمل کے بعد عدت سے باہر ہوجائیں گی، اس کے بعد شوہر کے ذمہ نفقہ واجب نہیں رہے گا۔

4- عدت کا تعلق استبراے رحم یعنی بچہ دانی کی صفائی سے ہے، لہٰذا کسی کا نکاح ہو، اور خلوت صحیحہ سے پہلے طلاق ہوجائے تو ایسی غیرمدخولہ کے لیے کوئی عدت نہیں ہوگی۔اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:

يٰۤاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ فَمَا لَكُمْ عَلَيْهِنَّ مِنْ عِدَّةٍ تَعْتَدُّوْنَهَا۠١ۚ فَمَتِّعُوْهُنَّ۠ وَ سَرِّحُوْهُنَّ سَرَاحًا جَمِيْلًا۔[سورۂ احزاب: ٤٩]

یعنی اے ایمان والو! اگر تم مومن عورتوں سے نکاح کرو، اور انھیں ہاتھ لگانے سے پہلے طلاق دے دو، تو تمھارے ذمے ان کے لیے کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو، ہاں تم انھیں بطور متعہ کچھ دےدو، اور اچھی طرح رخصت کردو۔

لہذا غیر مدخول بہا عورت طلاق کے ساتھ ہی عقد سے کلی طور پر باہر ہوجائے گی، اور بغیر کسی عدت کے دوسرے سے نکاح کرسکتی ہے۔

مطلقہ  عورتوں کے بعد اب بیوہ عورتوں کی عدتوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

1- بیوہ، غیر حاملہ عورتوں کی عدت چار ماہ دس دن ہے. خالق لم یزل عزوجل کا فرمان ہے:

وَ الَّذِيْنَ يُتَوَفَّوْنَ مِنْكُمْ وَ يَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا يَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِهِنَّ اَرْبَعَةَ اَشْهُرٍ وَّ عَشْرًا۔                                                                        [سورۂ بقرہ: ۲۳۴]

یعنی جو تم میں فوت ہوجائیں، اور اپنے بعد بیویاں چھوڑ جائیں،وہ بیویاں چار مہینے دس دن خود کو نکاح سے روکے رکھیں۔

یعنی چار ماہ دس دن کی عدت گزارنے کے بعد ہی دوسرے مرد سے نکاح کرسکتی ہیں۔

2- بیوہ حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے، ارشاد باری ہے:

وَ اُولَاتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُهُنَّ اَنْ يَّضَعْنَ حَمْلَهُنَّ۔                        [سورۂ طلاق: ۴]

یعنی اور حاملہ عورتوں کی عدت وضع حمل ہے۔

حضرت عمر ﷜نے فرمایا:

لو وضعت وزوجها على سريره لم يدفن بعد لحلت.  [مؤطا امام مالک]

یعنی شوہرکی وفات کے بعد عورت کو بچہ پیدا ہوگیا، ابھی  شوہر کی تدفین نہیں ہوئی، بلکہ اس کی لاش ابھی چار پائی ہی پر ہے تب بھی اس عورت کی عدت پوری ہوگئی۔

یہ ہے قرآن کریم میں ذکر کردہ احکام عدت اور مدت انتظار کا اجمالی تذکرہ، مزید تفصیل کے لیے کتب فقہ کی جانب مراجعت کریں، اور  اسی کے مطابق عمل کریں۔ واللہ تعالیٰ اعلم

 


قرآن فہمی کے لیے حدیث کی ضرورت

ایک تبصرہ چھوڑیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

اوپر تک سکرول کریں۔