بسم الله الرحمن الرحيم ، نحمده و نصلي و نسلم على رسوله الكريم ، و على أله و اصحابه اجمعين

قرآنی تعلیمات کی نشر واشاعت کا بہترین مرکز

انوار القرآن

The Best Key for Quranic Knowledge

Anwarul Quraan

سورۂ  نور  کی ایک آیت کا خلاصہ

سورۂ  نور  کی ایک آیت کا خلاصہ

سورۂ  نور  کی ایک آیت کا خلاصہ

محمد حبیب اللہ بیگ ازہری

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

قُلْ لِّلْمُؤْمِنِيْنَ يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۔ [سورۂ نور: ٢٦٤]

اے نبی! مسلمانوں کو حکم دو کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ ان کے لیے زیادہ پاکیزگی کا باعث ہے، اللہ ان کے کاموں سے باخبر ہے۔

اس آیت مبارکہ سے درج ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں۔

1 – اللہ نے پہلے نگاہوں کی حفاظت کا حکم دیا، بعد میں شرم گاہوں کی حفاظت کی تاکید کی، کیوں کہ نگاہوں کی حفاظت کے بغیر شرم گاہوں کی حفاظت ممکن نہیں، اگر نگاہیں محفوظ رہیں تو شرم گاہوں کی بھی حفاظت ہوسکتی ہے، اور اگر نگاہیں آوارگی کا شکار ہوجائیں تو پھر شرم گاہوں  کی حفاظت بھی مشکل ہوجاتی ہے۔

2 – اس آیت کریمہ میں دو باتوں کا حکم دیا، نگاہوں کی حفاظت اور شرم گاہوں کی حفاظت، لیکن دونوں کی تعبیر  مختلف ہے، نگاہوں کو پست رکھنے کا حکم دیا تو فرمایا:يَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ۔ اس میںيَغُضُّوْا کے  بعد مِنْ کا ذکر ہے، جب کہ شرم گاہوں کی حفاظت کا حکم دیا تو فرمایا: وَ يَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ۔ اس میںيَحْفَظُوْا  کے بعد مِنْ  کا  ذکر نہیں ہے۔

مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ  یہاں مِنْ تبعیض کے لیے ہے،  اور اس بات کو بتانے کے لیے ہے کہ  شرم گاہوں کے بالمقابل نگاہوں کے معاملے میں قدرے وسعت ہے، اور وہ یہ کہ  مرد  وعورت اپنے اپنےمحارم  کو دیکھ سکتے ہیں، اسی طرح  مرد  کے لیےاصالۃً اجنبیہ کے چہرے اور ہتھیلی کو دیکھنا جائز ہے، اور فتنے کے اندیشے کے پیش نظر ممنوع ہے، لیکن شرم گاہوں کا معاملہ اس سے بالکل مختلف ہے،  بیوی اور باندی کے علاوہ کسی دوسرے کے ساتھ کسی بھی طرح کا  جنسی  تعلق قابل ملامت ہے، اللہ جل وعلا کا ارشاد ہے:

وَ الَّذِيْنَ هُمْ لِفُرُوْجِهِمْ حٰفِظُوْنَۙ۰۰۵ اِلَّا عَلٰۤى اَزْوَاجِهِمْ اَوْ مَا مَلَكَتْ اَيْمَانُهُمْ فَاِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُوْمِيْنَۚ۰۰۶ فَمَنِ ابْتَغٰى وَرَآءَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْعٰدُوْنَ۔                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                                      [سورۂ مومنون: ۵ – ۷]

یعنی وہ کامیاب  ہیں جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے ہیں، ہاں بیویوں اور باندیوں کے معاملے میں ان پر ملامت نہیں، جو ان کے علاوہ کا قصد کریں وہ  حد سےتجاوز کرنے والے ہیں۔

۳ – شرم گاہوں کی حفاظت دو طرح سے کی جائے گی۔

(۱)  ستر پوشی کے ذریعے حفاظت کی جائے، یعنی پوشیدہ مقامات کو کپڑوں سے چھپایا جائے۔

(۲)  گناہوں سے دور رہ کر حفاظت کی جائے، یعنی سوائے نکاح شرعی کے کسی بھی دوسرے طریقے سے اپنی خواہش پوری نہ کی جائے، اس آیت کی روشنی میں درج ذیل جنسی عمل ناجائز وگناہ قرار پائیں گے۔

(۱) – غیر منکوحہ عورتوں سے جنسی تعلقات۔

(۲) – مردوں کے باہمی جنسی تعلقات۔

(۳) –  جانوروں کے ساتھ جنسی زیادتی۔

(۴) – مشت زنی یعنی اپنے ہاتھوں سے  جنسی تسکین حاصل کرنا۔

۴ – مزید فرمایا:

ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ۔

اس میں ان کے لیے زیادہ پاکیزگی ہے۔

یعنی نگاہ اور شرم گا ہ کی حفاظت  سے روح کو تسکین ملتی ہے، قلب کو اطمینان حاصل ہوتا ہے، اور نفس  میں طہارت وپاکیزگی پیدا ہوتی ہے، اور جو ان دونوں کی، یا ان میں کسی ایک کی حفاظت نہیں کرتے ان کو  حلاوت ایمان،ذوق عبادت اور لذت مناجات نہیں ملتی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :

إِنَّ الله كَتَبَ عَلَى ابْنِ آدَمَ حَظَّهُ مِنَ الزِّنَا أَدْرَكَ ذَلِكَ لاَ مَحَالَةَ، فَزِنَا الْعَيْنَيْنِ النَّظَرُ، وَزِنَا اللِّسَانِ النُّطْقُ، وَالنَّفْسُ تَتَمَنَّى وَتَشْتَهِى، وَيُصَدِّقُ ذَلِكَ الْفَرْجُ أَوْ يُكَذِّبُهُ۔                              [صحیح بخاری،باب زنا الجوارح دون الفرج]

یعنی اللہ تعالیٰ نے ابن آدم پر اس کا گناہ لکھ دیا ہے، جس کا وہ مرتکب ہوکر رہے گا، آنکھ کا زنا دیکھنا ہے، زبان کا زنا کہنا ہے، نفس کا زنا یہ ہے کہ وہ تمنا اور خواہش کرتا ہے،  پھر فرج اس کی تصدیق یا تکذیب کرتا ہے، یعنی گناہ کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے، یا دور رہ کر   محفوظ رہتا ہے۔

لہٰذا ابن آدم کو چاہیے کہ اپنی شرم گاہ  کی حفاظت کرے، بلکہ ان  تمام اعضا  وجوارح کی حفاظت کرے جن کے بگڑنے سے نفس  بگڑجاتا ہے،  انسان خواہشات کا پابند ہوکر اللہ سے دور ہوجاتا ہے، اور اپنی دنیا وآخرت برباد کر بیٹھتا ہے۔

۵ – آیت کے اخیر میں فرمایا:

اِنَّ اللّٰهَ خَبِيْرٌۢ بِمَا يَصْنَعُوْنَ۔

اللہ تعالیٰ ان کے کاموں سے باخبر ہے۔

یعنی بندے دنیا کی نظروں سے چھپ کر گناہ کرسکتے ہیں، لیکن جس کے حضور حاضر ہوکر حساب دینا ہے اسے بندوں کے اعمال کی خبر ہے، وَ هُوَ مَعَكُمْ اَيْنَ مَا كُنْتُمْ۔ وہ ہمہ وقت تمھارے ساتھ ہے، اس لیے اسی کی رضا کی خاطر اپنی نگاہوں اور شرم گاہوں کی حفاظت کی جائے، اور اسی کے خوف سے گناہوں سے  اجتناب کیا جائے۔

please visit our youtube channel

Share this page

اوپر تک سکرول کریں۔