رضائے الٰہی کے لیے قربانی
بقر عید قریب آنے والی ہے، تیاریاں زوروں پر ہیں، کچھ لوگ جانوروں کی خریداری میں مصروف ہیں، اور کچھ لوگ مناسب حصوں کی تلاش میں ہیں، اور کچھ لوگ فی الحال تردد کا شکار ہیں، لیکن جلد ہی کسی نتیجے پر پہنچنے والے ہیں۔
یہی مصروفیات کیا کم تھیں کہ شیطان نے ایک اور مصروفیت بڑھادی، کسی کے ارادے مضمحل کر رہا ہے، اور کسی کی نیتوں میں فتور پیدا کر رہاہے، دیکھا نہیں! لوگ کیسی کیسی باتیں کرنے لگے ہیں؟
1- کوئی کہتا ہے کہ جانور خریدنا، ذبح کرنا، پھر گوشت تقسیم کرنا بڑا لمبا کام ہے، اور اتنا گوشت کھایا بھی نہیں جاتا، اس سے آسان اور مناسب یہ معلوم ہوتا ہے کہ قربانی کی رقم غریبوں میں تقسیم کردی جائے۔
2 – کوئی کہتا ہے کہ گھر کے ہر ہر فرد کی طرف سے کیا قربانی کرائیں، جوائنٹ فیملی ہے، سب کی طرف سے ایک قربانی کافی ہے۔
3 – کوئی کہتا ہے ہر سال ہم اپنے والدین کے نام سے قربانی کراتے ہیں، اس طرح قربانی بھی ہوجائے گی، اور ایصال ثواب بھی ۔
4 – کوئی کہتا ہے قربانی کا ارادہ تو نہیں تھا، لیکن صرف یہ سوچ کر قربانی کر رہا ہوں کہ اگر ہم نے قربانی نہیں کی تو لوگ کہیں گے کہ حاجی صاحب – جن کے گھر کے سبھی افراد سرکاری ملازم ہیں- بہت بڑے بخیل ہیں۔
یہ سب شیطانی وسوسے ہیں، جو لوگ شیطان کے ورغلانے میں آجاتے ہیں اور کسی دنیاوی مفاد کے لیے قربانی کرتے ہیں ان کی قربانی قبول نہیں ہوسکتی، قربانی ایک عبادت ہے، اس کے لیے اخلاص، حسن نیت، احکام شرع کی پیروی اور آداب سنت کی رعایت از حد ضروری ہے، اللہ جل وعلا کا ارشاد ہے :
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ١ؕ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ۔ [سورۂ حج: ۳۷]
یعنی اللہ کی بارگاہ میں جانوروں کا گوشت اور خون پیش نہیں ہوتا، اس کی بارگاہ میں تمھارا تقوی پیش ہوتا ہے،معاملہ یہی ہے، اس نے تمھارے لیے جانوروں کو مسخر کیا،تاکہ تم اس کی عطا کردہ ہدایت پر اس کی کبریائی بیان کرو، اور مخلص بندوں کو خوش خبری سنادو۔
الجامع لاحکام القران اور در منثور وغیرہ کتب تفاسیر میں ہے کہ دور جاہلیت کے کفار ومشرکین کا معمول تھا کہ جب وہ قربانی کرتے تو جانوروں کا خون مسجد حرام میں چھڑکتے، دیوار کعبہ پہ لگاتے، اور گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناکر پتھروں پر رکھ دیتے، اور ان خود ساختہ رسومات کو کعبہ کی تعظیم، قربانی کی قبولیت اور اپنے لیے بہت بڑی سعادت کا ذریعہ تصور کرتے تھے، موسم حج میں مسلمان کعبہ شریف پہنچے، اور انھوں نے دور جاہلیت کے اس عمل کے سلسلے میں دریافت کیا تو مذکورہ بالا آیت کریمہ نازل ہوئی اور فرمایا کہ گوشت پوست پر ثواب نہیں دیا جاتا، بلکہ تقوی اور حسن نیت پر ثواب دیا جاتا ہے۔
مذکورہ بالا آیت کے مطابق قربانی کی قبولیت کا دار و مدار تقوی پر ہے، اسی لیے ہمیں تقوی کی حقیقت سمجھ کر اسی کے مطابق عمل کرنا چاہیے، تاکہ ہماری قربانی عند اللہ مقبول ہو، اور ہم حضرت حق سبحانہ وتعالیٰ کی طرف سے اجر وثواب کے حق دار بنیں۔
اوامر کی بجا آوری، اور نواہی سے اجتناب کا دوسرا نام تقوی ہے، قربانی کے باب میں تقوی کا یہ مطلب ہے اللہ عزوجل اور اس کے پیارے حبیب ﷺ کی جانب سے عائد کردہ احکامات کے مطابق قربانی کی جائے، اور ہر قسم کی خلاف ورزی سے پرہیز کیا جائے، قربانی میں تقوی کی رعایت کی ممکنہ صورتیں یہ ہیں:
1- قربانی کے ایام میں قربانی ہی کی جائے، کیونکہ کوئی بھی دوسرا عمل قربانی کا متبادل نہیں ہوسکتا۔
2 – اگر گھر کے کئی افراد پر قربانی ہو تو سب کی طرف سے علاحدہ علاحدہ قربانی کی جائے، سب کی طرف سے ایک قربانی نا کافی ہے۔
3 – قربانی ایک عبادت ہے، جو زندوں پر واجب ہوتی ہے، زندوں کے بجائے مردوں کی طرف سے قربانی کرنے کی صورت میں واجب ادا نہیں ہوگا، اس طرح دوسروں کی جانب سے قربانی کرنے والا بری الذمہ نہیں ہوسکتا، اور اپنی طرف سے قربانی نہ کرنے پر اس سے بازہوگی۔
4 – قربانی حسن نیت کے ساتھ کی جائے، اور اللہ کی رضا جوئی کے لیے کی جائے، گوشت کھانے، واہ واہی حاصل کرنے یا بد نامی سے بچنے کےلیےنہ کی جائے، بلکہ ایسی فاسد نیت کے ساتھ ہونے والے ذبح کو قربانی کا نام نہ دیا جائے، کیوں کہ حدیث پاک میں ہے:
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ وَ إِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى ۔[صحیح بخاری شریف]
یعنی اعمال کا دار و مدار نیتوں پر ہے اور ہر شخص کے لیے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی۔
لہٰذا اگر کوئی اللہ کی رضاجوئی، شریعت اسلامیہ کے ایک مقدس شعار اور واجب کی ادایگی کی نیت کے ساتھ قربانی کرے تو وہ یقیناً اپنے فرض سے سبک دوش ہوجائے گا، اور عند اللہ ثواب کا حق دار ہوگا، اور اگر کسی نے قربانی کی نیت ہی نہیں کی، بلکہ قربانی کے نام پر اپنے اہل خانہ کی خدمت اور بدنامی سے بچنے کی تدبیر نکالی تو ایسے عمل کو قربانی کا نام کیوں کر دیا جاسکتا ہے؟
5 – قربانی کے جانور کی خریداری، حصوں میں شرکت، ذبح اور تقسیم وغیرہ تمام کاموں میں کتاب وسنت کی پیروی ضروری ہے، در اصل یہی تقوی ہے، اور اسی پر قربانی کی قبولیت کا دار و مدار ہے، فرمایا:
لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَ لَا دِمَآؤُهَا وَ لٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰى مِنْكُمْ۔ [سورۂ حج: ۳۷]
یعنی گوشت، پوست اور خون پر ثواب نہیں عطا ہوتا، ثواب تو محض تقوی اور حسن نیت پر عطا ہوتا ہے۔
لہٰذا از اول تا آخر ہر گام پر احتیاط، اخلاص، حسن نیت اور تقوی کا التزام ضروری ہے، ورنہ قربانی کے رائیگاں ہونے کا اندیشہ ہے۔
اخیر میں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ قربانی ایک ایسا عمل ہے جو ہمیں ایثار، اخلاص اور باہمی تعاون کی تعلیم دیتا ہے، اور اس بات کا درس دیتا ہے کہ ہم اپنے دین کی خاطر جان، مال، عزت و آبرو کو قربان کرنے کا حوصلہ رکھیں، اور ہمارا مقصد حیات یہ ہونا چاہیے:
قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَ نُسُكِيْ وَ مَحْيَايَ وَ مَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ۔ [سورۂ انعام: ۱۶۲]
یعنی کہہ دو میری نماز ، میری قربانی ، میری زندگی ، اور میری موت اللہ کے لیے ہے،یعنی میرا سب کچھ اللہ کے لیے ہےجو سارے جہانوں کا پروردگار ہے۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو شریعت وسنت کے مطابق قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین، یا رب العالمین۔
رزق حلال قرآن کی روشنی میں