مطلقہ عورتوں کو نکاح ثانی سے مت روکو
محمد حبیب اللہ بیگ ازہری
اللہ جل شانہ کا ارشاد ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ يُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْيَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ يَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۰۰۲۳۲ ۔ [سورۂ بقرہ: ٢٣٢]
یعنی جب تم بیویوں کو طلاق دے دو، اور وہ اپنی عدت پوری کرلیں، تو انھیں اپنے شوہروں سے نکاح کرنے سے مت روکو، جب کہ وہ شرعی طریقے پر نکاح کے لیے باہم راضی ہوں، یہ نصیحت ان کے لیے ہے جو تم میں اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں، یہ تمھارے لیے صاف ستھرا طریقہ ہے، اللہ سب کچھ جانتا ہے، لیکن تم نہیں جانتے۔
سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۲۶ تا ۲۴۲میں نکاح، طلاق، خلع، ایلا، مہر، عدت اور رضاعت وغیرہ کے متعدد احکام بیان کیے گئے ہیں، جن میں ایک حکم اس مطلقہ عورت کا بھی ہے جو طلاق کی عدت گزارنے کے بعدشرعی طور پرنئے نکاح کے قابل ہوجاتی ہے، لیکن طلاق دہندہ شوہر، مطلقہ کے اولیا، قرابت دار یا دیگر افراد اس مطلقہ کو نکاح جدید سے روک کر اسے اس کے شرعی اور قانونی حق سے محروم کردیتے ہیں، ایسے افراد کے لیے اللہ تعالیٰ کا واضح حکم یہ ہے کہ جب عاقدین شرعی طور پر نکاح کے لیے راضی ہوں تو پھر ان کو نکاح سے مت روکو۔
ترجمہ اور اجمالی تشریح کے بعد اب آئیے تفصیلات جانتے ہیں، اور قرآنی اسلوب کے بعض اسرار و رموز سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مذکورہ بالا آیت کے حوالے سے ہونے والی گفتگو میں درج ذیل چار امور ہماری خصوصی توجہ کے متقاضی ہیں۔
۱ – طَلَّقْتُمُ (جب تم طلاق دے دو) طلاق شوہر کا حق ہے، اسی لیے یہاں شوہروں سے ہی خطاب ہے، عام ازیں کہ طلاق دہندہ، شوہر اول ہو یا شوہر ثانی۔
۲- فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ (انھیں مت روکو) روکنے والے افراد بہت ہوسکتے ہیں، ایک اندازے کے مطابق انھیں بھی چار خانوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
- شوہر اول، جو اپنی مطلقہ کو نکاح ثانی سے روکے۔
- شوہر ثانی، جو شوہر اول یا کسی بھی مرد سے نکاح سے روکے۔
- مطلقہ کے اولیا، جو طلاق دہندہ شوہر یا کسی بھی مرد سے نکاح سے روکیں۔
- دیگر افراد جو مطلقہ کو پس عدت نکاح سے روکیں۔
۳ -اَزْوَاجَهُنَّ (مطلقہ عورتوں کے شوہر) عدت طلاق سے باہر ہونے کے بعد طلاق دہندہ مرد شوہر نہیں رہ سکتا، تاہم ما کان یعنی سابقہ حالت کا اعتبار کرتے ہوئے اسے شوہر کہا جاسکتا ہے، یوں ہی دوسرے مرد کو عقد سے پہلے شوہر نہیں کہا جاسکتا، تاہم ما یکون یعنی آئندہ حالت کے اعتبار سے اسے شوہر کہا جاسکتا ہے۔
اس آیت میں مطلقہ کے شوہروں سے سابقہ یا آئندہ ہونے والے شوہر مراد ہیں، کیونکہ مطلقہ عورتوں کا نکاح جدید سے پہلے حقیقی معنوں میں کوئی شوہر نہیں ہوسکتا۔
مطلقہ کی زندگی میں آنے والے مرد کو قرآن نے شوہر سے تعبیر کیا، تاکہ لوگوں کو اس بات کا احساس دلایا جاسکے کہ عورت ایک ایسے شخص سے وابستہ ہونا چاہتی ہے جو ماضی میں اس کا شوہر رہ چکا ہے، تو اب اس رشتے کو روکنے کی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی، اسی طرح عورت بعد نکاح بیوی بن کر اپنے شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں، لہذا اس رشتے کو روکنے کی بھی کوئی وجہ نہیں ہوسکتی۔
۴ -اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔یعنی جب شرعی طریقے پر عاقدین رضامند ہوجائیں۔ نکاح کے لیے عاقدین کی رضامندی ضروری ہے، لیکن اس رضامندی میں شرعی احکام کی پاس داری لازم ہے، اگر عاقدین شرعی حدود میں رہتے ہوئے نکاح پر راضی ہوجائیں تو پھر انھیں نکاح جدید سے نہ روکا جائے، ہاں اگر احکام شرع کا لحاظ نہ ہو تو اولیا کو منع کرنے کا حق حاصل ہے، مثلاً غیر کفو میں شادی ہو، شرط فاسد کے ساتھ نکاح ہو، یا تین طلاق دینے والے شوہر سے قبل حلالہ نکاح جدید ہو تو اولیا اور معاملات سے باخبر افراد پر ضروری ہے کہ وہ اس نکاح کو روکیں، محض اپنے مفاد کی خاطر کسی طے شدہ رشتے کو نہ توڑیں۔
ان چاروں امور کے بارے میں ضروری معلومات کی فراہمی کے بعد مذکورہ بالا آیت مبارکہ کی دوبارہ تلاوت کریں اور دیکھیں کہ قرآن مجید نے طلاق دہندہ شوہر، نکاح ثانی سے روکنے والے افراد اور شوہر جدید کے انتخاب کے سلسلے میں پیش آنے والی ساری امکانی صورتوں کو ایک آیت میں کس خوش اسلوبی کے ساتھ بیان فرمادیا ہے۔
۱ – کبھی ایسا ہوتا ہے شوہر اول طلاق دے دیتا ہے، بیوی عدت گزار کر شوہر ثانی سے نکاح کرنے کی خوہش مند ہوتی ہے، شوہر اول روکتا ہے، ایسے ہی افراد کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔
یعنی اے شوہرو! اپنی مطلقہ بیویوں کو پس عدت نکاح ثانی سے مت روکو، بشرطے کہ یہ عقد موافق شرع ہو۔
اس صورت میں طَلَّقْتُمُ اور فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ کا مخاطب شوہر اول ہوگا۔
۲- کبھی ایسا ہوتا ہے کہ طلاق دہندہ طلاق دے دیتا ہے، اور عدت کے بعد عورت کو نکاح ثانی کا شرعی حق حاصل ہوجاتا ہے، لیکن مطلقہ کے اولیا شوہر اول یا شوہر ثانی سے نکاح کی حمایت نہیں کرتے، بلکہ مطلقاً نکاح سے روکتے ہیں، ایسے اولیا کے لیے اللہ تعالیٰ کا حکم ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔
یعنی جب شوہر اپنی بیویوں کو طلاق دے دے، اور عورتیں پس عدت نکاح ثانی کے لیے آمادہ ہوجائیں تو اے اولیا! اپنی مطلقہ خواتین کو اب نکاح ثانی سے مت روکو، بشرطے کہ وہ نکاح شرع شریف کے مطابق ہو۔
اس صورت میں طَلَّقْتُمُ میں خطاب شوہروں سے ہوگا اور فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ کے مخاطب مطلقہ کے اولیا ہوں گے۔
واضح رہے کہ یہ آیت اسی باب میں نازل ہوئی ہے، چنانچہ تفسیر قرطبی وغیرہ میں ہے کہ حضرت معقل بن یسارکی بہن کو جب ان کے شوہر نے طلاق دےدی، اور آپ نے عدت طلاق گزار لی تو ان کے شوہر کو ندامت ہوئی، اور انھوں نے دوبارہ پیغام نکاح بھیجا تو مطلقہ صحابیہ نے رشتہ منظور کر لیا، لیکن ان کے برادر گرامی حضرت معقل بن یسار نے منع کردیا، تو اللہ تعالیٰ نے مذکورہ بالا آیت نازل کی، اور اولیا کو نکاح ثانی میں رخنہ اندای سے منع فرمایا۔
۳ – کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ایک عورت رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوتی ہے، لیکن کسی وجہ سے طلاق ہوجاتی ہے، پھر دوسرے مرد سے شادی کرتی ہے، اس کی جانب سے بھی جدائی کا فیصلہ ہوجاتا ہے، اب یہی عورت شوہر اول سے نکاح کے لیے آمادہ ہوجاتی ہے، تو شوہر ثانی روکتا ہے، اور کسی طرح اپنی جانب مائل کرنے کی کوشش کرتا ہے، ایسے ہی شوہروں کے لیےفرمایا:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔
یعنی اے شوہر ثانی! اپنی مطلقہ عورت کو پس عدت نکاح ثانی سے مت روکنا، اور شوہر اول سے منسلک ہونے میں رکاوٹ مت ڈالنا، بشرطے کہ عقد جدید شریعت کے مطابق ہو۔
اس صورت میں دونوں جگہ مخاطب شوہر ثانی ہوگا۔
۴ – قرآن کریم مطلقہ عورتوں کو نکاح ثانی کا شرعی حق دلانا چاہتا ہے، اور عورت کو اس کے جائز حقوق سے محروم کرنے والوں کو تنبیہ کرتا ہے کہ جب شریعت کے مطابق عقد ثانی کے لیے پیش رفت ہو تو رکاوٹ پیدا مت کرو، لہٰذا اس حکم میں شوہر اول، دوم اور مطلقہ عورتوں کے اولیا کے ساتھ ساتھ تمام افراد شریک ہوں گے، اور کسی بھی فرد بشر کو اس بات کی اجازت نہیں ہوگی کہ وہ کسی بھی مطلقہ کو نکاح ثانی سے روکے، ایسے تمام افراد کے لیے عام حکم ہے:
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ يَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَيْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ۔
یعنی اے لوگو! جب تم طلاق دو، تو اپنی مطلقہ عورتوں کو پس عدت نکاح ثانی سے مت روکو، بشرطےکہ عقد جدید شریعت کے مطابق ہو۔
چوں کہ طلاق دینے والے شوہر اور مرد ہی ہوتے ہیں، اور طلاق عورتوں ہی کو دی جاتی ہے اسی لیے مطلق طلاق کی نسبت مردوں کی طرف کی، اور فرمایا کہ تمھاری طلاق کے بعد عورت عقد نکاح سے آزاد ہو کر نکاح جدید کے لائق ہوجاتی ہے، لہٰذا اسے اپنے حق سے محروم نہ کرو۔
مذکورہ بالا تفصیلات کو پڑھنے کے بعد اس بات کا بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ قرآن مجید نے ایک ہی آیت میں مکمل وضاحت کے ساتھ متعلقہ مسئلے کے جملہ امکانی صورتوں کو بیان کردیا ، اور مطلقہ عورتوں کو نکاح ثانی کا مکمل حق دیا ، اور اس باب میں کسی بھی طرح کی دخل اندازی کو ممنوع وناجائز قرار دیا ۔واللہ تعالیٰ اعلم۔
please visit our youtube channel